پینٹ شرٹ پہن کر نماز پڑھنا پڑھانا کیسا ہے

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
    بعدے سلام آپ حضرات کہ بارگاہ میں عرض ہے کہ ایک امام صاحب  پینٹ پہن کر امامت  کرتے ہیں جب لوگوں نے اعتراض کیا تو   کہنے لگے میں ڈھیلا  پینٹ پہنتا ہو  اور اس پینٹ پر نماز ہوجاےگی   جب کی کپڑا  دیکھ کر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کپڑا پینٹ کا ہے  اور امام صاحب پینٹ کرتا پر امامت فرمارہے ہیں آپ حضرات سے گزارش ہے کہ مدلل اور بہ حولہ جواب عنایت فرمایں نوزش ہوگی۔  
الفقیر محمد مسلم رضا قادری

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجــوابــــ بعون الملک الوھاب
 پینٹ‌ شرٹ یا پینٹ کے اوپر کرتا پہن کر نماز پڑھنا پڑھانا بالکل جائز و درست ہے ۔ کیونکہ یہ اب انگریزوں کا شعار نہ رہا پہلے جب یہ انگریزوں کا شعار تھا اس وقت پینٹ، شرٹ پہننا مکروہ تھا اور اس میں نماز بھی مکروہ ہوتی تھی لیکن اب ایسا ہرگز نہیں ہے۔ لیکن امام مذکور کو چاہیے کہ پینٹ نہ پہنیں اور پینٹ پہن کر ہرگز ہرگز نماز نہ پڑھائیں کیونکہ وہ امامت کے منصب پر فائض ہیں۔ لہٰذا آئندہ جب بھی نماز پڑھائیں تو سنت رسول اللہﷺ اور سنت صحابہ پر عمل کرتے ہوئے لونگی یا پائجامہ کا ہی استعمال کریں۔ 

 حدیث شریف میں ہے: مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ۔ یعنی جس نے کسی قوم سے مشابہت کی تو وہ اسی میں سے ہے۔ (مشکوۃ شریف باب اللباس صفحہ ۳۷۵)

اور دوسری حدیث شریف میں ہے حضرت امیر المؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: "ایاکم وزی الاعاجم" یعنی اپنے آپ کو عجمی مجوسیوں کے لباس سے بچاؤ۔
 اس لئے کفار کی وضع کے کپڑے پہننا حرام و ناجائز ہے یعنی جو وضع ان کے ساتھ مخصوص ہے اس سے بچنا لازم ہے اگر خاص ان کی وضع نہ ہو تو استعمال کر سکتے ہیں کیوں کہ کسی بھی قوم کا وہ لباس ممنوع ہے جو ان کے ساتھ خاص ہو دوسرے لوگ اس کے استعمال کے عادی نہ ہوں جس لباس کو دیکھ کر ہر شخص یہ کہہ دے کہ یہ فلاں قوم کا فرد ہے۔
اور جو لباس کسی قوم کے ساتھ خاص نہ ہو یا پہلے خاص تھا اب خاص نہ رہا عام ہوگیا وہ کسی قوم کا خاص لباس نہیں کہلائے گا اگرچہ وہ اس قوم کا ایجاد کردہ ہو۔
 اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں: تشبہ وہی ممنوع و مکروہ ہے جس میں فاعل کی نیت تشبہ کی ہو یا وہ شی ان بد مذہبوں کا شعار خاص یا فی نفسہٖ شرعا کوئی حرج رکھتی ہوں بغیر ان صورتوں کے ہرگز کوئی وجہ ممانعت نہیں۔
 فتاوی رضویہ نہم نصف اول صفحہ ۱۹۱ 

 اور اعلی حضرت مجدد اعظم علیہ الرحمہ کے دور میں پینٹ، شرٹ انگریزوں کا خاص لباس اور شعار تھا جو کوئی کسی کو پینٹ پہنے ہوئے دیکھتا تو کہہ دیتا کہ یہ انگریز ہے اس لیے آپ نے فتوی دیا کہ پتلون پینٹ پہننا مکروہ ہے اور مکروہ کپڑے میں نماز بھی مکروہ لیکن پینٹ، شرٹ کا استعمال اب بالکل عام ہوچکا ہے ہندو مسلم ہر کوئی اس کو استعمال کرتا ہے کسی قوم کے ساتھ خاص نہ رہا اس لیے اگر پینٹ ایسا ڈھیلا ہو کہ نماز ادا کرنے میں دشواری نہ ہو تو اسے پہن کر نماز جائز ہے۔
 البتہ ائمہ مساجد کی شایان شان نہیں کہ وہ نیابت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے منصب پر ہیں لہذا وہ پینٹ نہ پہنیں اور ہر گز اس میں نماز نہ پڑھائیں بلکہ سنت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت صحابہ کرام، اولیاء کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر عمل کرتے ہوئے لنگی یا پائجامہ کا استعمال کریں۔ (بحوالہ فتاوی فقیہ ملت جلد اول (۱) باب ما یکرہ فی الصلاة صفحہ (۱۸۰) مکتبہ شبیر برادرز اردو بازار لاہور)
واللہ اعلم باالصواب

محمد ارباز عالم نظامى تركپٹى كوریاں كشى نگر ىوپى الهند :

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے