کیا لفظ "چھوڑ دیا" کہنے سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟


السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل میں کہ ہندہ اور زید میاں بیوی ہیں دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جھگڑے کے دوران ہندہ نے کہا مجھے چھوڑ دو تو زید نے کہا چھوڑ دیا کیا اس سے طلاق واقع ہوگی؟  مہربانی فرماکر تفصیلی جواب سے نوازیں،  (سائل ،نامعلوم) 

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوھاب ، لفظ"چھوڑ دیا" اردو زبان میں طلاق کے صریح الفاظ میں سے ہے، لہذا صورۃ مسئولہ میں زید نے یہ لفظ اگر ایک بار کہا ہے تو اس کی بیوی ہندہ پر ایک رجعی طلاق واقع ہوئی جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے اندر رجعت کر سکتا ہے، واضح رہے کہ یہاں زید کا قول :چھوڑ دیا" میں بیوی کی طرف لفظ میں اضافت نہیں ہے مگر یہ قول چونکہ بیوی کے مطالبہ: مجھے چھوڑ دو" کے جواب میں واقع ہوا ہے اس لیے اس میں اضافت پالی گئی، اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: 
عورت کو چھوڑدینا عرفا طلاق میں صریح ہے، خلاصہ وہندیہ میں ہے : لوقال الرجل لامرأتہ تراچنگ باز داشتم او بہشتم اویلہ کردم ترا او پاے کشادہ کردم ترا فھذا کلہ تفسیر قولہ طلقتک عرفا حتی یکون رجعیا ویقع بدون النیۃ"

اگر کوئی شخص بیوی کو کہے: میں نے تیرا چنگل باز رکھا، تجھے چھوڑا ہے، تجھے جدا کردیا ہے یا تیرے پاؤں کھول دئے ہیں، تویہ تمام الفاظ عرفا " تجھے طلاق دی" کے ہم معنی ہیں، اس لیے ان سے رجعی طلاق ہوگی اور بغیر نیت طلاق ہوگی" (فتاوی رضویہ مترجم جلد ١٢ صفحہ ٥٨٣، طلاق کا بیان، باب الکنایۃ ،مرکز اہل سنت برکات رضا)

بہار شریعت میں ہے 
" اردو میں یہ لفظ کہ میں نے تجھے چھوڑا، صریح ہے اس سے ایک رجعی ہوگی، کچھ نیت ہو یا نہ ہو" (بہار شریعت جلد دوم حصہ ٨ صفحہ ١١٨، طلاق کا بیان، صریح کا بیان)

والله تعالى اعلم بالحق والصواب 
محمد اقبال رضا خان مصباحی 
سنی سینٹر بھنڈار شاہ مسجد پونہ
١٢،محرم الحرام ١٤٤٦ھ /١٩،جولائی ٢٠٢٤ء بروز جمعہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے