کیا والدین کے کہنے سے اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہیے یا نہیں؟



سوال نمبر 7301
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام وعلیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ 
اگر والدین کہیں کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو، تو کیا بیٹے کو طلاق دے دینی چاہیے؟ رہنمائی فرمائیں  سائلہ عشرت جہاں مومبئی انڈیا فقہی مسائل مسائل خواتین شرعی شرعی و جواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي ونصلي ونصلي الكريم 
وعلیکم السلام السلام الله وبركاته 

الجواب بعونہ تعالی تعالی وجل 
مسئلہ مسئولہ میں آج کے پرفتن دور میں جہاں والدین دین سے دورہیں جنہیں اس چیز کا علم ہی نہیں ہے کہ انہیں کس صورت میں طلاق ک مطالبہ کرنے کا حق ہے اور کس صورت میں نہیں ہے بس ہلکی سی ذاتی رنجش وغیرہ کی وجہ سے یا بہو کے والدین سے ذاتی رنجش و لڑائی کی وجہ سے یابہو کے انکا کام جوکہ شرعا اس پر لازم نہیں ہے نہ کرنے کی وجہ سے نا فرمان بہو کہہ کر بیٹے کو طلاق دینے کا مطالبہ شروع کر دیتے ہیں جبکہ بیوی بے قصور و مظلوم ہوتی ہے تو ایسی صورت حال میں محض والدین کے کہنے پر بیٹےکا اپنی بیوی کو طلاق دینا مطلقا واجب نہیں ہے اگر شوہر، بیوی کو طلاق نہ دے توگنہگارنہیں ہوگا اور نہ ہی والدین کا نافرمان  کہلاۓگا لہذا ایسی صورتحال میں بیٹا اپنے والدین کو حکمت عملی سے سمجھائے اور انہیں طلاق کے مطالبے سے دستبردار ہونے کو کہے۔بلکہ مذکورہ صورت میں طلاق نہ دینا ضروری ہے بلا وجہ شرعی طلاق دینا گناہ ہے۔ جیسے بیوی کے لیے بلا وجہ شرعی طلاق کا مطالبہ گناہ ہے۔اور گناہ کے کام میں والدین کی فرماں برداری جائز نہیں بیوی اور والدین کے الگ الگ شرعی حقوق ہیں۔  اللہ تعالی کے نزدیک مباح کاموں میں سب سے ناپسندیدہ کام طلاق دینا ہے
 حدیث مبارکہ میں ہے
اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَى اللَّهِ تَعَالٰى اَلطَّلَاقُ
 یعنی حلال چیزوں میں خدا کے نزدیک زیادہ نا پسندیدہ طلاق ہے (سنن ابی داٶد حدیث2178)

صحیح مسلم میں ہے
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ إِبْلِيسَ يَضَعُ عَرْشَهُ عَلَی الْمَاءِ ثُمَّ يَبْعَثُ سَرَايَاهُ فَأَدْنَاهُمْ مِنْهُ مَنْزِلَةً أَعْظَمُهُمْ فِتْنَةً يَجِيئُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ فَعَلْتُ کَذَا وَکَذَا فَيَقُولُ مَا صَنَعْتَ شَيْئًا قَالَ ثُمَّ يَجِيئُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ مَا تَرَکْتُهُ حَتَّی فَرَّقْتُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ قَالَ فَيُدْنِيهِ مِنْهُ وَيَقُولُ نِعْمَ أَنْتَ قَالَ الْأَعْمَشُ أُرَاهُ قَالَ فَيَلْتَزِمُهُ یعنی:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے پھر وہ اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے پس اس کے نزدیک مرتبے کے اعتبار سے وہی مقرب ہوتا ہے جو فتنہ ڈالنے میں ان سے بڑا ہو ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اس اس طرح کیا تو شیطان کہتا ہے تو نے کوئی (بڑا کام) سر انجام نہیں دیا پھر ان میں سے ایک (اور) آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے (فلاں آدمی) کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ ڈلوا دی شیطان اسے اپنے قریب کر کے کہتا ہے ہاں !تو ہے(جس نے بڑا کام کیا ہے) اعمش نے کہا میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا وہ اسے اپنے سے چمٹا لیتا ہے
(صحیح مسلم حدیث2605)

جامع ترمذی میں ہے
عن ابي الدرداء ان رجلا اتاه فقال: ان لي امراة وان امي تامرني بطلاقها؟ فقال له ابو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم: الوالد اوسط ابواب الجنة فان شىت فحافظ على الباب او ضيع۔ حضرت ابی الدرداء سے کہ ایک شخص انکے پاس آیا بولا میری بیوی ہے اور میری ماں اسے طلاق دے دینے کا مجھے حکم دیتی ہے تو ان سے ابو الدرداء نے فرمایا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ والدین جنت کے دروازوں میں بیچ کا درازہ ہیں تو اگر تم چاہو تو دروازہ سنبھال لو یا اسے ڈھا دو۔  (جامع ترمذی حدیث 1900)

 اس حدیث مبارکہ کے تحت مرآۃ المناجیح میں ہے
مقصد یہ ہے کہ یا تو اپنی بیوی سے اپنی ماں کو راضی کر دو ساس بہو کی صلح کرا دو یا طلاق دے دو صراحۃً طلاق کا حکم نہ دیا کہ ایسی صورت میں طلاق دینا واجب نہیں بہتر ہے اور اگر ماں باپ بیوی پر ظلم کرنے کا حکم دیں کہ اسے خرچہ نہ دے اسے میکے میں چھوڑ دے تو ہرگز نہ کرے کہ ظلم حرام ہے ماں باپ کی اطاعت حکم شرع کے خلاف میں نہیں(مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 6  حدیث 4928)

 فتاوی بحر العلوم میں ہے
اس حالت میں زید کا اپنی بیوی کو طلاق دینا جائز کہ طلاق دیدے تو والدین کی اطاعت ہو گی اگر طلاق نہ دے تب بھی شرعاً گناہگار نہ ہو گا۔خلاصہ یہ ہے کہ اس صورت میں اگر شوہر طلاق نہ دے تو کوئی گناہ نہیں نہ والد کی بے جا نافرمانی اور اگر طلاق دیدے تو یہ بھی جائز ہے (فتاوی بحر العلوم کتاب الطلاق جلد 3 صفحہ 20)

 وقار الفتاوی میں ہے
اگر بیوی کی طرف سے کوئی زیادتی اور قصور نہیں ہے ماں صرف اپنی بیٹی کا بدلہ لینے کیلئے  بیٹے کو طلاق دینے کا کہتی ہے تو والدہ کے اس حکم کی فرمانبرادری بیٹے پر واجب نہیں ماں کو سمجھائے کہ ترش روئی اور سخت کلامی سے اجتناب کرے( وقار الفتاوی جلد3صفحہ250)

فتاوی رضویہ میں ہے
بِلاوجہِ شرعی طلاق دینا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند و مَبغوض و مکروہ ہے۔(فتاوی رضویہ جلد12صفحہ323)

البتہ اگر والدین دین کا کچھ علم رکھتےہیں اور والدین کی طرف سے طلاق کا مطالبہ کسی شرعی وجہ سے ہو یا بہو کے شوہر کے والدین اگرچہ دین کا علم ذیادہ نہ رکھتےہوں یا دیگر سسرال والوں سے بلاوجہ بداخلاقی ولڑاٸی جگھڑا،گالم گلوچ وغیرہ کرنےکامعمول ہو اورایسی صورت میں والدین کےمطالبے پر بیوی کو طلاق نہ دینا والدین کی سخت دل آزاری و ناراضگی کا سبب ہو تو اس صورت میں بیٹےکا اپنے والدین کے طلاق کےمطالبہ کرنے پر اپنی بیوی کو طلاق دینا واجب ہے اگرچہ میاں بیوی ایک دوسرے سے مطمٸن و خوش ہوں

 حدیث مبارکہ میں ہے`
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَنْبَأَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَتْ تَحْتِي امْرَأَةٌ أُحِبُّهَا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أَبِي يَكْرَهُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَنِي أَبِي أَنْ أُطَلِّقَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَبَيْتُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏طَلِّقْ امْرَأَتَكَ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ إِنَّمَا نَعْرِفَهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی، میں اس سے محبت کرتا تھا، اور میرے والد اسے ناپسند کرتے تھے۔ میرے والد نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں، لیکن میں نے ان کی بات نہیں مانی۔ پھر میں نے اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا: "عبداللہ بن عمر! تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہم اسے صرف ابن ابی ذئب ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔ (جامع ترمذی حدیث1189)

 اس حدیث مبارکہ کے تحت مرآۃ المناجیح میں ہے` 
شاید اس بی بی میں کوئی دینی خرابی ہوگی محض دنیاوی وجہ پر طلاق کا حکم نہ دیا ہوگا۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ امر وجوب کا ہے اور حضرت عبدالله ابن عمر پر اس حکم کی بنا پر طلاق دینا واجب ہو گیا۔مرقات نے فرمایا کہ امر استحباب کے لیے ہے یعنی بہتر یہ ہے کہ طلاق دے دو تاکہ تمہارے والد تم پر ناراض نہ ہوں۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 6 حدیث 4940 )

 مشكوة المصابيح میں ہے
عن معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ قال : قال رسول اللہ  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  ؛لا تعقن والدیک و ان امراک ان تخرج من اہلک و مالک۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ماں باپ کی نافرمانی مت کر اگر چہ وہ تجھے حکم دیں کہ تو اپنے اہل ومال کو چھوڑ دے۔ (مشكوة المصابيح حدیث61)

 فتاوی فیض رسول میں ہے`
اگر والدین طلاق کا مطالبہ کریں تو اس پر طلاق دینا لازم ہے اور اگر طلاق نہیں دے گا تو والدین کا نا فرمان قرار دیا جائے گا اس لئے کہ طلاق امر مباحات میں سے ہےناور امر مباح میں والدین کی اطاعت لازم ہے (فتاوی فیض رسول جلد2 کتاب الطلاق 184)

فتاوی رضویہ میں ہے
 بعض صورتوں میں زوج پر زوجہ کو طلاق دینا واجب ہوجاتا ہے۔ جیسے زوج کے والدین طلاق کا حکم کریں اور زوجہ کو طلاق نہ دینے میں والدین کی ناراضگی کا باعث ہو تو واجب ہے کہ طلاق دے دے (فتاوی رضویہ جلد12 صفحہ433)

 وقار الفتاوی میں ہے
علماء فرماتے ہیں اگر والدین حق پر ہوں تو ان کے کہنے سے طلاق دینا واجب ہے۔ اگر بیوی حق پر ہے، جب بھی ماں کی رضامندی کیلئے طلاق دینا جائز ہے۔(وقار الفتاوی جلد3 صفحہ252)

بہار شریعت میں ہے
علما فرماتے ہیں کہ اگر والدین حق پر ہوں جب تو طلاق دینا واجب ہی ہے اور اگر بی بی حق پر ہو جب بھی والدین کی رضا مندی کے لیے طلاق دینا جائز ہے۔ (بہار شریعت جلد2حصہ 10صفحہ 556)

فتاوی فیض رسول میں ہے
 ہندہ اپنے شوہر زید اور اس کے والدین کوایذا دینے والی تھی اور لائق طلاق تھی طلاق دینے کے سبب زید مستحق ملامت نہ ہوا ۔ لھذا جو شخص یہ کہتا ہے کہ لڑکی ہزار بارغلطی کرے مگر وہ لائق طلاق نہیں اور جو لوگ ایسی نافرمان عورت کو طلاق دینے کے سبب مخالف ہو گئے وہ سب غلطی پرہیں ۔ (فتاوی فیض رسول جلد صفحہ130)

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
كتبه محمد مجیب قادري لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال
15/06/2024

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے