دخول سے پہلے ہی شوہر کا انتقال ہو جائے تو عدت کا حکم ؟


 اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ الله وَبَرَكاتُهُ‎
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل میں،زید نے ہندہ سے  شادی کی اور دخول سے پہلے ہی زید کا انتقال ہو گیا کیا ھندہ اب عدت گزارے گی؟ جو مسئلہ ہو رہنمائی فرماکر مدلل جواب سے نوازیں عین نوازش ہو گی۔ سائل : ارشاداحمد 

وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجــوابــــــــــ بعون الملک الوہاب
پہلے یہ جان لیں کہ عورت مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ ،بہر صورت اس پر عدتِ وفات لازم ہوتی ہے ، اسلئے کہ اس عدت کا سبب، موت ہے ، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں زید کی منکوحہ، ہندہ پر بلاشبہ چار ماہ دس دن کی عدتِ وفات گزارنا لازم وضروری ہے۔

عدتِ وفات کے متعلق اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے، وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًاۚ “ترجمہ کنز الایمان: ”اور تم میں جو مریں اور بیبیاں چھوڑیں وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔ (القرآن الکریم، (پ) (٢) ،سورۃ البقرۃ، آیت (٢٣٤)

اور اس آیتِ مبارک کے تحت تفسیرِ نعیمی میں ہے کہ، عدت موت ہر بیوی پر یکساں لازم ہے کہ حاملہ اور لونڈی کے سوا باقی سب عورتیں بچی ہوں یا بڈھی ، خلوتِ صحیحہ ہوئی ہو یا نہ ، چار ماہ دس دن یہ ہی عدت گزاریں گی ۔(تفسیرِ نعیمی، سورۃ البقرۃ، جلد دوم (۲)، صفحہ۴۹۴) مکتبہ۔ نعیمی۔ کتب ۔خانہ۔ گجرات)

عدتِ وفات کے متعلق مجمع الانہر، میں ہے کہ،  و النظم للاول“ ( و ) عدة الحرة مؤمنة أو كافرة تحت مسلم صغيرة أو كبيرة ولو غير مخلو بها (للموت في نكاح صحيح أربعة أشهر وعشرة أيام) ترجمہ، یعنی آزاد عورت جو  نکاح صحیح کے ذریعے مسلمان کی بیوی ہو ،اس   کی عدت  وفات چار ماہ دس دن ہے اگرچہ بیوی مؤمنہ ہو یا کتابیہ ،چھوٹی ہو یا بڑی ہو اگرچہ اس کے ساتھ خلوت نہ ہوئی ہو۔ (مجمع الانھر، کتاب الطلاق جلد دوم) (۲) باب العدۃ صفحہ ، ١٤٣ تا (۱۴۴)، المكتبة دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)

اور حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محقق بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان سے سوال ہوا کہ ،متوفیہ الزوج مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ،  شرعاً اس کے لئے عدت ہے یا نہیں؟ تو اسکے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ وفات کی عدت عورت غیر حامل پر مطلقا چار مہینے دس دن ہے خواہ صغیرہ ہو یاکبیرہ، مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ۔(فتاوی رضویہ شریف جلد سیزدہم (١٣) باب العدۃ، مکتبہ، رضا فاؤنڈیشن لاھور)

   اور حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ والرضوان اسی طرح کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ ، صورتِ مذکورہ میں عدت واجب ہے ۔ زوجہ یا شوہر کا صغیرہ یا صغیر ہونا مانع عدت موت نہیں ہے اور موت میں دخول یا خلوت ہونا بھی وجوب عدت کے لیے شرط نہیں کہ اس عدت کا سبب موت ہے۔ قرآن مجید میں ہے: وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ ۔الخ، (فتاوی امجدیہ، جلد دوم (۲) عدت کا بیان، صفحہ (۲۹۰) مکتبہ رضویہ، آرام باغ۔ روڈ کراچی۔ پاکستان)

 واللــہ تــــــعالیٰ اعلـم بالصــواب
کتبـــــہ: محمد ارباز عالم نظامی ترکپٹی کوریاں کشی نگر یوپی الهند مقیم حال بريده القصم سعودي عربيہ 

الجواب صحیح
العبد ابوالفیضان الحاج محمد عتیق اللہ صدیقی فیضی یارعلوی ارشدی عفی عنہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے