اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ الله وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی امام مسجد میں کسی کے حق میں یہ دُعا کرتا ہے کہ یا اللہ اس کو لنگڑا بنا دے، لولا بنا دے، نابینا بنا دے کیا اسلام اس چیز کی اجازت دیتا ہے ؟ قرآن اور حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع دیں ۔ سائل : صدرالدین مہراجگنج اُتر پردیش انڈیا
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجــوابــــــــــ بعون الملک الوہاب
کسی بھی مسلمان کے لئے بددعا نہیں کرنی چاہیے۔ چاہے وہ مسلمان گناہگار ہی کیوں نہ ہاں اسکے لیے ہدایت کی دعا کرسکتے ہیں۔ البتہ اگر کوئی ظالم شخص ہو اور دیگر مسلمانوں کو اپنے ظلم و سِتم سے تکالیف پہنچاتا ہوتو اسکے لیے بددعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں امام مذکور کو ایسی بددعا نہیں کرنی چاہیے۔ آئندہ ایسی بددعا کرنے سے حتی الامکان گریز و پرہیز کریں، اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ، وَیَدْعُ الۡاِنۡسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَہٗ بِالْخَیۡرِ ؕ وَکَانَ الۡاِنۡسَانُ عَجُوۡلًا ترجمہ کنز الایمان :اور آدمی برائی کی دعا کرتا ہے جیسے بھلائی مانگتا ہے اور آدمی بڑا جلد باز ہے۔
(پارہ ۱۷، سورة الإسراء،آیت ۱۱)
اور صراط الجنان فی تفسیر القران میں ہے کہ، اس سے معلوم ہوا کہ غصّے میں اپنے یا کسی مسلمان کیلئے بددعا نہیں کرنی چاہیے اور ہمیشہ منہ سے اچھی بات نکالنی چاہیے کہ نہ معلوم کونسا وقت قبولیت کا ہو۔ ہمارے معاشرے میں عموماً مائیں بچوں کو طرح طرح کی بددعائیں دیتی رہتی ہیں ، مثلا تیرا بیڑہ غرق ہو، تو تباہ ہوجائے، تو مرجائے، تجھے کیڑے پڑیں وغیرہ، وغیرہ، اس طرح کے جملوں سے احتراز لازم ہے۔ (تفسیر صراط الجنان ،جلد پنجم (۵) ،صفحہ (۴۲۷) ، المكتبة المدينة باب المدینه کراچی)
اور حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محقق بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ، سنی مسلمان اگر کسی پر ظالم نہیں تو اس کے لئے بددعا نہ چاہئے بلکہ دعائے ہدایت کی جائے کہ جو گناہ کرتا ہے چھوڑ دے، اور اگر ظالم ہے اور مسلمانوں کو اس سے ایذا ہے تو اس پر بد دعا میں حرج نہیں۔ (فتاوی رضویہ شریف،جلد (۲۳) ، ذکر و دعا، صفحہ (۱۸۳) مکتبہ رضا فاؤنڈیشن لاھور)
اور فضائل دعا میں ہے کہ، کسی مسلمان کو یہ بد دُعا کہ تجھ پر خدا کا غضب نازل ہو اور تو آگ یا دوزخ میں داخل ہو! نہ دے حدیث شریف میں اس کی ممانعت وارد ہے ۔ مزید اسی میں ہے کسی مسلمان کے نقصان کی دعا نہ کرے ، اپنے یا کسی کے خلاف بددعا نہ کریں- (فضائل دعا، صفحہ (۱۵۹ تا ۱۶۰ ۱۶۱) مکتبہ نور الامان پبلیکیشنز دربار مارکیٹ لاھور)
واللــہ تــــــعالیٰ اعلـم بالصــواب
کتبـــــہ: محمد ارباز عالم نظامى ترکپٹی کوریاں کشی نگر یوپی الھند، مقیم حال بریدہ القصیم سعودی عربیه
الجواب صحیح
حضرت مفتی محمد معصوم رضا نوری صاحب قبلہ مد ظلہ العالی
0 تبصرے