السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتـه
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں ایک مسلمان غیر مسلم کو قرض دے کر منافع لے سکتے ہیں حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتـہ
الجواب بعون الملک الوھاب
یہاں، کے کفار حربی ہیں اور حدیث شریف میں ہے لا ربو بین المسلم والحربی کہ مسلمان اور کافر حربی کے درمیان سود نہیں. لہٰذا حربی کافر کو قرض دیکر (منافع) یعنی زیادہ رقم لینا جائز ہے بشرطیکہ سود سمجھ کر نہ لے کہ سود مطلقاً حرام ہے چنانچہ حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محقق بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان، تحریر فرماتے ہیں کہ،اگر قرض دیا اور زیادہ لینا قرار پایا تو مسلمان سے حرام قطعی اور ہندو سے جائز جبکہ اسے سود سمجھ کر نہ لے، (فتاوی رضویہ شریف جلد ہفدہم (١٧) باب الربو صفحہ (٣٢٧) مکتبہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
اور بہار شریعت میں ہے کہ ، مسلم اور کافر حربی کے مابین دار الحرب میں جو عقد ہو اس میں سود نہیں، (جلد دوم حصہ یازدہم (١١) سود کا بیان صفحہ (۷۷۵) المکتبۃ المدینہ دعوت اسلامی)
اور فتاوی فیض الرسول میں ہے کہ۔ کافر حربی و مسلمان کے درمیان سود نہیں۔ جلد دوم (۲) سود کا بیان۔ صفحہ (۳۸۵) مکتبہ شبیر برادرز اردو بازار لاہور)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ؛ محمـد اربـاز عـالــم نظامـی تـرکپٹی کوریاں کشی نگر یوپی الہند مقیم حال بریدہ القصم سعودیہ عـربیۃ
✅️الجــواب صحـــیـــــح
فقیـــر محمـد عتیــق اللہ فیضـی یار علوی عـــفی عنــــــــہ
0 تبصرے