حالت روزہ میں انجکشن لگوا سکتے ہیں یا نہیں؟

 ســــوال نــمــبــــــر  ( 734 )
اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰـهِ وَبَرَكاتُهُ‎
سوال: امید ہے کہ گروپ کے تمام تر علماء کرام خیر و عافیت سے ہوں گے گروپ میں میرا ایک سوال ہے کہ انجکشن لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں۔  برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں؟ الـمـسـتفتی؛ یعقوب رضا" یوپی

    وَعَلَيْكُمُ السَّلَامْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
الجواب بعون الملک الوھاب
اس سلسلے میں فقہائے کرام کا موقف یہ ہے کہ انجکشن لگوانا مفسد صوم نہیں انجیکشن لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا چاہے گوشت میں لگوائے یارگ میں کیوں کہ اس سلسلے میں حکم شرعی یہ ہے کہ قصداً کھانے پینے اور جماع کے علاوہ ایسی دوا یا غذا سے روزہ ٹوٹے گا جو پیٹ یا دماغ میں داخل ہو دوا تر ہو یا خشک 

جیساکہ فتاویٰ عالمگیری جلد اول مطبوعہ رحیمیہ صفحہ ۱۰۴ میں ہے "وفي دواء الجائفة والامّة اكثر المشايخ على ان العبرة للوصول إلي الجوف والدماغ لا لكونه رطبا أو يابسا حتى إذا علم أن اليابس وصل يفسد صومه ولو علم أن الرطب لم يصل إلى الجوف لم يفسد هكذا في العنايه ." اھ" دماغ میں داخل ہونے سے اس لئے روزہ ٹوٹے گا کہ دماغ سے پیٹ تک ایک منفذ ہے جس کے ذریعے دوا وغیرہ پیٹ میں پہنچ جاتی ہے ورنہ درحقیقت پیٹ میں کسی چیز کا داخل ہو کر رک جانا ہی فساد صوم کا سبب ہے

جیسا کہ بحر الرائق جلد دوم  صفحہ ۳۰۰ میں ہے: "قال في البدائع و هذا يدل على أن استقرار الداخل في الجوف شرط لفساد الصوم وفي التحقيق أن بين الجوفين منفذا اصليا فما وصل إلى جوف الرأس يصل إلى جوف البطن كذا في العنايه" اھ ملخصا گوشت میں انجکشن لگنے سے دوا پیٹ یا دماغ میں کسی منفذ کے ذریعے داخل نہیں ہوتی بلکہ مسامات کے ذریعے پورے بدن میں پھیل جاتی ہے اور مسامات کے ذریعے کسی چیز کے داخل ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا

جیساکہ فتاویٰ عالمگیری جلد اول صفحہ ۱۰۴ میں ہے.:
"وما يدخل من مسام البدن من الدهن لا يفطر هكذا في شرح المجمع اھ" اسی طرح رگ میں انجکشن لگنے سے بھی دوا پیٹ یا دماغ میں منفذ سے داخل نہیں ہوتی بلکہ رگوں سے دل یا جگر میں پہنچتی ہے اور وہاں سے رگوں کے ذریعے ہی پورے بدن میں پھیلتی ہے ان رگوں کو شرائین یا آوردہ کہتے ہیں جو بالترتیب دل یا جگر سے نکلی ہوئی ہیں.

جیسا کہ علامہ محمود چغینی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں: "اما العروق الضواريب التي تسمي الشرائين فهي نابتة من القلب في تجويفها روح كثير و دم قليل ومنفعتها أن تفيد الأعضاء قوة الحيلة التي تحملها من القلب .و امام العروق الغير الضوارب التي تسمى آورده فهي نابتة من الكبد فيها دم كثير او روح قليل و منفعتها ان تسقى الأعضاء الدم الذى تحمله من الكبد. اھ ملخصا" ( قانوچہ صفحہ ۳۰۰ مطبوعہ نامی پریس لکھنؤ )(فتاوی فقیہ ملت جلد اول کتاب الصوم صفحہ 344/345 /شبیر برادرز اردو بازار لاہور / ایسےہی  فتاویٰ علیمیہ جلد 1 صفحہ 418 روزہ کا بیان میں بھی موجود ہے)

        واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب 
کتبہ؛ غلام حضور تاج الشریعہ حضرت مولانا محمد راحت رضا نیپالی صاحب قبلہ، استاد جامعہ غوثیہ ضیاءالعلوم بابا گنج بہرائچ شریف

(شائع کردہ) اســــمٰـــعـــــیـــلـــی گـــروپ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے