السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مفتیان کرام کی بارگاہ میں عرض ہے کہ یہاں جامع مسجد میں دو جماعت ہوتی ہے جمعہ کے دن،امام وسط محراب میں کھڑے ہو کر پہلی جماعت کی نماز پڑھاتے ہیں، دوسری جماعت کے لیے امام کہاں کھڑا ہو؟ وہ جگہ چھوڑ کر محراب کے دائیں بائیں کھڑے ہو جائیں یا پھر پہلی صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھائیں تسلی بخش جواب دے کر مشکور فرمائیں؟ المستفتی: حضرت مولانا محمد شریف عالم مقیم حال : پالگھر مہاراشٹر
الجواب بعون الملک الوھاب
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
فقہائے کرام رحمھم اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے دوسری جماعت کے لیے امام کہاں کھڑا ہوگا ؟ اس کے لیے جگہ کی کوئی تعیین و تخصیص نہیں فرمائی ہے البتہ فقہائے کرام نے اتنا ضرور لکھا ہے دوسری جماعت کے لیے امام کو محراب سے ہٹ کر ہونا چاہیے ۔ اگر اسی محراب میں کھڑا ہوگیا تب بھی نماز ہوجائے گی لیکن مکروہ تنزیہی ہوگی ۔ جیساکہ امام ابو یوسف علیہ الرحمہ سے روایت ہے کہ: اگر جماعت اپنی پہلی ہیئت پر نہیں ہے تو کوئی کراہت نہیں ہے ورنہ کراہت ہے یہی صحیح ہے كما فى ردالمحتار عن أبي يوسف انه إذا لم تكن الجماعة على الهيئة الأولى لاتكره وإلا تكره وهوالصحيح اھ (ردالمحتار ، ج ثانی ، ص:٢٨٩)
فتاوی رضویہ مترجم جلد ہفتم ص: ٥٥/٥٦/میں ہے: امام اھل سنت اعلی حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ: "یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے ظاہر الروایة سے حکم کراہت نقل کیاگیا اور علامہ محقق اجل مولی خسرو نے درر و غرر اور مدقق اکمل علامہ محمد بن علی دمشقی حصکفی نے خزائن الاسرار میں فرمایا کہ اس کراہت کا محل صرف اس صورت میں ہے جب یہ لوگ باذان جدید جماعت ثانیہ کریں ورنہ بالاجماع مکروہ نہیں، اور اسی طرف درمختار میں اشارہ فرمایا اور ایسے ہی منبع وغیرہ میں تصریح کی ، اور قول محقق منقح یہ ہے کہ اگر یہ لوگ اذان جدید کے ساتھ اعادہ جماعت کریں تو مکروہ تحریمی ، ورنہ اگر محراب نہ بدلیں تو مکروہ تنزیہی ورنہ اصلا کسی طرح کی کراہت نہیں ، یہی صحیح ہے اور یہی ماخوذ للفتوی، درمختار میں ہے یکرہ تکرار الجماعة باذان واقامة فی مسجد محلة لافی مسجد طریق او مسجد لاامام لہ ولامؤذن ۔محلہ کی مسجد میں اذان و تکبیر کے ساتھ جماعت کا تکرار مکروہ ہے البتہ راستہ کی مسجد اور ایسی مسجد میں مکروہ نہیں جہاں امام اور مؤذن نہ ہو۔(درمختارباب الامامة مطبوعہ مجتبائی دہلی ١، ٨٢)
اور حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ ، بہار شریعت ، حصہ سوم ، جماعت کا بیان میں فرماتے ہیں کہ: "مسجد محلہ میں جس کے ليے امام مقرر ہو ، امام محلہ نے اذان و اقامت کے ساتھ بطریق مسنون جماعت پڑھ لی ہو تو اذان و اقامت کے ساتھ ہيات اولی پر دوبارہ جماعت قائم کرنا مکروہ ہے اور اگر بے اذان جماعت ثانیہ ہوئی ، تو حرج نہیں جب کہ محراب سے ہٹ کر ہو اور اگر پہلی جماعت بغیر اذان ہوئی یا آہستہ اذان ہوئی یا غیروں نے جماعت قائم کی تو پھر جماعت قائم کی جائے اور یہ جماعت جماعت ثانیہ نہ ہوگی۔ ہيات بدلنے کے ليے امام کا محراب سے دہنے یا بائیں ہٹ کر کھڑا ہونا کافی ہے"۔
ان عبارتوں سے واضح ہوچکا کہ دوسری جماعت کے لیے امام محراب سے ہٹ کر کہیں بھی کھڑا ہوسکتا ہے۔ تنبیہ خاص: یہ یاد رہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مرد پر مسجد میں جماعت اولی کے ساتھ نماز پڑھنا واجب ہے اور شرعی رخصت کے علاوہ ، محض سستی کی بنا پر مسجد کی جماعت اولی چھوڑنا جائز نہیں۔ لہذا جماعت ثانی کی امید پر جماعت اولی کو بلاوجہ شرعی چھوڑنےکی اجازت نہیں ہے۔ اور شارع عام کی مساجد جن کے نمازی مقرر نہیں ہوتے ، اسی طرح بازاروں اور اسٹیشن وغیرہ کی مساجد ، جہاں لوگ آتے رہتے ہیں ، اور نماز پڑھ کر چلےجاتے ہیں ، ان کا حکم یہ ہےکہ وہاں اذان و اقامت کے ساتھ بھی دوسری جماعت قائم کرنے میں حرج نہیں ، بلکہ یہی افضل ہے کہ جو گروہ آئے وہ نئی اذان واقامت کے ساتھ جماعت کرے۔
فقط واللہ و رسولہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم
کتبہ؛ محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ
خادم التدریس والافتا دارالعلوم شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات، ٦/ربیع الثانی ١۴۴۵/ ہجری ٢٢/ اکتوبر ٢٠٢٣ عیسوی۔ بروز اتوار ۔
0 تبصرے