تراویح کے دوران اگر ایک دو آیت چھوڑ کر آگے بڑھ جائے تو کیا حکم ہے؟


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ حافظ صاحب نماز تراویح پڑھاتے ہیں اور قرات کے دوران جہاں پر ان کو مشابہ ہوتی ہے یا پھر یاد نہیں آتے ہیں تو آیت چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں یا ایک دو آیت چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور نماز مکمل کر لتے ہیں تو اب حافظ صاحب کیلئے کیا حکم ہے؟ کیا اس طرح نماز تراویح ہو جائے گی؟  قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ مفتی صاحب اس سوال کی طرف توجہ فرما کر جواب عنایت فرمائیں۔ سائل: محمد عمران گلبرگہ شریف بمعرفت: مولانا محمد نصیرالدین رضوی

الجواب بعون الملک الوھاب
اللھم ھدایة الحق والصواب
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ 
اس سلسلے میں چھوٹی ہوئی آیت کی تعیین و نشاندہی کرکے سوال کیا جائے، اس لیے کہ آیتوں کے مضمون و معنی کے اعتبار سے حکم مختلف ہوسکتا ہے، اگر آیت چھوٹنے کی وجہ سے معنی میں تغیر فاحش نہ ہو، تو نماز ہوجاتی ہے، ورنہ نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ درمختار مع شامی جلد اول ، ص: ٦٣٣/ میں ہے: "ولوزاد کلمةً أو نقص کلمة أو نقص حرفًا أو قدّمه أو بدله بآخر ... لم تفسد مالم یتغیر المعنی"۔ پس صورت مسئولہ میں اگر حافظ صاحب نے ایسی آیت کو چھوڑ کر آگے بڑھا ہے جس کے چھوڑنے سے معنی میں ایسا بدلاؤ پیدا نہیں ہوا جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے تو ایسی صورت میں نماز ہوجائے گی، اور اگر ایسا بدلاؤ پیدا ہوگیا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔

اس لیے بہتر یہی ہے کہ چھوٹی ہوئی آیات کی تعیین کے ساتھ مسئلہ پوچھا جائے۔ یاد رہے کہ عام حالات میں اگر دو آیتوں کے درمیان میں ایک مکمل آیت بھولے سے چھوٹ جائے، اور اگلی اور پچھلی آیات سانس توڑ کر الگ الگ تلاوت کی گئی ہوں تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔ اور سہواً ایسا ہونے سے نماز مکروہ بھی نہیں ہوگی۔

یہ بھی وضاحت کردی جا رہی ہے کہ بفرض تسلیم تراویح میں اگر حافظ صاحب مشابہت کی وجہ سے یا یاد نہ آنے کے سبب سے ایسی آیتوں کو چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں جس کے چھوڑنے کی وجہ سے معنی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے تو ایسی صورت میں نماز تو ہوجائے گی لیکن حافظ صاحب کو چاہیے کہ اسی رکعت میں یا اگلی رکعت میں ان چھوڑی آیتوں کو دوہرا لے کہ یہ مستحب ہے۔ اگر نہ دوہرایا اور یوں ہی آگے بڑھ گیا تو پھر تراویح میں جو پورا قرآن سننا سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے وہ سنت ادا نہ ہوگی اور تراویح میں پورا قرآن پاک سننے کا ثواب نہ ملے گا۔

جیساکہ فتاوی عالمگیری ، جلد اول ، ص: ١١٨/ میں ہے: "وإذا غلط فی القراءة فی التراویح فترک سورة أو آیة وقرأ ما بعدھا فالمستحب لہ أن یقرأ المتروکة ثم المقروءة لیکون علی الترتیب، کذا فی فتاوی قاضی خان. مطلب یہ ہے امام غلطی سے کوئی آیت یا سورت چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تو مُسْتَحَب یہ ہے کہ اُسے پڑھ کر پھر آگے بڑھے۔ 

فتاوٰی رضویہ ‘‘ جلد دھم ، ص: ٣٣۴/ پر ہے: "قرآن دَرْ تراویح خَتم کَرْ دَنْ نَہ فَرْضَ سْت وَ نَہ سُنَّتِ عین۔یعنی تراویح میں قراٰنِ کریم ختم کرنا نہ فرض نہ سنَّتِ عین ہے"۔ اور اسی کے ص: ٣٣۵/ پر ہے: "خَتْمِ قُرآن دَرْ تراویح سنّتِ کِفایہ اَسْت۔ یعنی تراویح میں ختمِ قراٰن سنَّتِ کِفایہ ہے"۔ اور اگر حافظ صاحب مشابہت کی وجہ سے یا پھر یاد نہ آنے کی وجہ سے ایسی آیت بیچ سے چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے معنی بدل جاتا ہے اور اس میں فساد پیدا ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں نماز فاسد ہوجائے گی لہذا ان حافظ صاحب پر لازم ہے کہ ان رکعتوں کی قضا کرے اور ان آیتوں کو جس کو وہ چھوڑ دیا ہے اسے لوٹا لے تاکہ مکمل قرآن سننے کا ثواب مل جائے ۔ 

فقط واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 
کتبہ العبد الآثم محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی غفرلہ اللہ القوی ولابویہ و احبابہ ۔ خادم التدریس والافتا دار العلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دار الافتا و خطیب و امام گلشن مدینہ مسجد واگرہ بھرچ گجرات ۔ 
١٩/ رمضان المبارک ١۴۴۴ 
١١/ اپریل ٢٠٢٣ بروز منگل

جواب صحیح ہے
حاذق درسیات ، سراپا خلوص و محبت حضرت علامہ مفتی نذر الباری اشرفی جامعی (ناظم تعلیمات: جامع اشرف کچھوچھہ شریف امبیڈ کرنگر یوپی) 

الجواب صحیح والمجیب مصیب ومثاب  
حافظ ھدایہ ، شرف الفقہاء حضرت علامہ مفتی محمد شرف الدین رضوی (خادم التدريس دارالعلوم قادریہ حبیبہ فیل خانہ ہوڑہ بنگال)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے