اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
فرماتے ہیں علماۓ کرام ومفتیان شرع اس مسُلےکےبارے میں کہ دیہات میں جمعہ فرض ہے یا نہیں حوالےکے ساتھ نوازیں بہت مہربانی ہوگی سائل؟ عمران رضا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
گاؤں دیہات کے وہ سب لوگ جن میں شرائط جمعہ مسلمان و مرد، مقیم ،تندرست ،عاقل،بالغ ہونا پائی جانے کی صورت میں شرعاً ان کا جمعہ پڑھنا صحیح و درست ہے، بشرطیکہ گاؤں کی سب سے بڑی مسجد میں نماز پڑھیں اور اس میں پورے نہ آسکیں ،بلکہ اس کی توسیع یعنی (بڑھانے) کی ضرورت پڑے,تو ایک روایت کے مطابق ایسے گاؤں میں جمعہ و عیدین صحیح و درست ہیں اور فی زمانہ مفتیان کرام نے اسی روایت پر فتویٰ بھی دیا ہے ۔ لہٰذا جس نے ایسی جگہ جمعہ پڑھ لیا تو اس کا جمعہ صحیح و درست ہوگا، اور اس سے ظہر کی فرضیت بھی فقہائے متاخرین کے نزدیک ساقط ہوگئی، اور اگر گاؤں میں اتنے افراد نہ ہوں، تو اس میں نماز جمعہ شروع کرنا،ناجائز و گناہ ہے۔ مگر جس نے ایسی جگہ جمعہ نہیں پڑھا یا پہلے سے قائم ہونے کے سبب پڑھا نفلًا محض اللہ کے نام لینے کی غرض سے پڑھا ، اس سے نفلا جمعہ صحیح و درست ہوا، مگر اس پر بھی فرض ہرگز نہ ہوا۔ ایسے شخص کے لئے دوسرے دنوں کی طرح جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز پڑھنا فرض ہے اور جماعت سے پڑھنا واجب ہے ۔ اگر بجماعت پڑھنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو تو فرداً فرداً فرض ہی رہے گا! روایتِ نادرہ جیسا کہ در مختار و رد المحتار میں ہے کہ۔ المصر وھو مالا یسع اکبر مساجدہ اھلہ المکلفین بھا وعلیہ فتویٰ اکثرالفقھاء۔
ترجمہ؛ یعنی شہر وہ ہے کہ اس کی مساجد میں سے بڑی مسجد میں وہاں کے وہ باشندے نہ سما سکیں جن پر جمعہ فرض ہے اور اسی پر اکثر فقہاء کرام کا فتویٰ ہے۔ (ردالمحتار معہ در مختار ،کتاب الصلاۃ جلد سوم (۳) باب صلاة الجمعة۔ صفحہ(۵) مکتبہ دار العلوم للطباعة والنشر والتوزيع الرياض.
اور علامہ ابن نجیم مصری الحنفی علیہ رحمۃ اللہ القوی تحریر فرماتے ہیں کہ ، وعن ابی یوسف انہ ما اذا اجتمعوا فی اکبر مساجدھم للصلوات الخمس لم یسعھم وعلیہ فتویٰ اکثرالفقھاء وقال ابو شجاع : ھذا احسن ما قیل فیہ۔و فی الولوالجیة:وھو الصحیح،
ترجمہ : یعنی امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالی سے منقول ہے کہ شہر وہ ہے کہ جب وہاں کے باشندے اپنی مساجد میں سے بڑی مسجد میں نمازِپنجگانہ کے لئے جمع ہوں تو وہ انھیں کم پڑ جائے اور اسی پراکثر فقہاء کرام کا فتویٰ ہے۔ ابو شجاع علیہ الرحمۃ نے فرمایا :یہ بہترین تعریف ہے جوشہر کی کی گئی ہے اورولوالجیہ میں ہے کہ یہی تعریف صحیح ہے (البحر الرائق، شرح کنز الدقائق جلد دوم (۲) کتاب الصلاۃ باب صلاۃ الجمعة صفحہ (٢٤٧) دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)
اور حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محقق بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ، ہاں ایک روایت نادرہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے یہ آئی ہے کہ جس آبادی میں اتنے مسلمان مرد ،عاقل ،بالغ ایسے تندرست جن پر جمعہ فرض ہو سکے آباد ہوں کہ اگر وہ وہاں کی بڑی سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو نہ سما سکیں یہاں تک کہ انہیں جمعہ کے لئے مسجد جامع بنانی پڑے ، وہ صحت جمعہ کے لئے شہر سمجھی جائے گی جس گاؤں میں یہ حالت پائی، جائے اس میں اس روایت نوادر کی بنا پر جمعہ وعیدین ہو سکتے ہیں اگرچہ اصل مذہب کے خلاف ہے مگر اسے بھی ایک جماعت متاخرین نے اختیار فرمایا اور جہاں یہ بھی نہیں وہاں ہر گز جمعہ خواہ عید مذہب حنفی میں جائز نہیں ہو سکتا بلکہ گناہ ہے (فتاوی رضویہ شریف جلد ہشتم (۸) باب الجمعة صفحہ (۳۴۷) مکتبہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
اور ایسی جگہ جہاں جمعہ پڑھنا جائز نہیں ہے ، وہاں ظہر کی نماز کے بارے میں خاتم المحققین علامہ محمد امین بن عابدین شامی نقل فرماتے ہیں: لو صلوا فی القری لزمھم أداء الظھر،
ترجمہ: یعنی اگر لوگ ایسےگاؤں میں جہاں جمعہ جائز نہیں جمعہ ادا کریں تو ان پر ظہر کی نماز ادا کرنا ہی ضروری ہے ۔ (رد المحتار معہ در مختار جلد سوم (۳) باب صلاۃ الجمعہ صفحہ (۹) مکتبہ، دار عالم الكتب للطباعة والنشر والتوزيع الرياض.)
اور فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی محمد جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ: دیہات میں جمعہ کی نماز پڑھنا مذہب حنفی میں جائز نہیں ، لیکن عوام اگر پڑھتے ہوں تو منع نہ کر یں گے کہ شاید اس طرح اللہ ورسول کا نام لے لینا ان کے لیے ذریعہ نجات ہو جاۓ گا۔ مزید اسی صفحہ پر ہے۔ دیہات میں جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے، لیکن عوام اگر پڑھتے ہوں تو انہیں منع نہ کیا جائے، کہ وہ جس طرح بھی اللہ و رسول کا نام لیں غنیمت ہے۔ (فتاوی فیض الرسول جلد اول (۱) باب صلوة الجمعه۔ صفحہ (۴۰۶) مکتبہ شبیر برادرز اردو بازار لاہور)
اور فتاوی مفتی اعظم میں ہے کہ: گاؤں میں جمعہ ناجائز ہے ، جہاں ہوتا ہو وہاں روکا نہ جائے کہ فتنہ ہے ، نیز یہ کہ وہ اتنے سے بھی جائیں گے واللہ تعالی اعلم ۔ انہیں آہستہ آہستہ اس کی تلقین کی جاۓ کہ وہ ظہر بھی پڑھ لیں ۔ مزید، وہ ظہر بھی جماعت ہی سے پڑھنے کو کہا جاۓ کہ بے عذر ترک جماعت گناہ ہے ۔ (فتاوی مفتی اعظم جلد سوم (۳) کتاب الصلاۃ صفحہ (۱۲۱ تا ۱۲۲) مکتبہ، امام احمد رضا اکیڈمی صالح نگر، بریلی شریف)
لہٰذا مذکورہ بالا نصوص سے معلوم ہوا کہ، روایت نادرہ پر دیہات میں جمعہ مذکور شرطوں پر صحیح و درست ہے۔ اور اگر روایت نادرہ کے مطابق جمعہ قائم کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اگر وہاں جمعہ جاری ہو چکا ہے۔ اور یہ اندیشہ ہو کہ بند کردیا جائے گا تو فتنہ و فساد ہوگا تو اُن کیلئے حکم شرعی یہ ہے کہ وہاں پر جمعہ بند نہ کیا جائے لیکن جمعہ کی نماز پڑھ لینے کے بعد ظہر کی نماز باجماعت پڑھنا وہاں کے لوگوں پر واجب ہے۔ اسلئے کہ بے عذر ترک جماعت گناہ ہے۔
واللـہ تعـــالی اعلم بالصـــواب
كتبــه: محمد ارباز عالم نظامى تركپٹى كورىاں كشى نگر ىوپى الهند : مقىم حال بريده القصىم سعودي عربية
✅الجواب صحیح
سید محمد شمس الحق برکاتی المصباحی صاحب قبلہ
تاج الشریعہ فقہی گروپ
0 تبصرے