شیشہ کے سامنے نماز پڑھنا کیسا ہے؟

اَلسَـلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام مسئلۂ ذیل کے بارے میں کہ مسجد کے دروازے میں شیشہ سیٹ کیا ہوا ہو یا پھر دائمی جنتری وغیرہ شیشہ کے ساتھ فریمنگ کیا ہوا ہو اسکے سامنے نماز پڑھنے پر تصویر خود کی یا غیرکی جو سامنے کھڑا ہو دکھائی د یتی ہو ایسی صورت میں نماز پڑھنے والے کی نماز ہو جائے گی یا نہیں؟ ســائل : محمد ارمان علی قادری برکاتی خطیب و امام کٹیسر چندولی یوپی

و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ    
الجواب بعون الملک الوہاب
شیشہ یا شیشہ کا فریم جس میں خود نماز پڑھنے والے کی یا کسی دوسرے کی صورت دکھائی دیتی ہو اس کے سامنے نماز پڑھنے سے نماز ہو جائے گی ،اس لیے کہ شیشہ میں جو صورت د کھائی د یتی ہے وہ اصلا تصویر نہیں ہے بلکہ عکس ہے، ہاں اگر شیشہ کے سامنے نماز پڑھنے سے دھیان بٹتا ہو اور خشوع و خضوع میں کمی آتی ہو تو اس کے سامنے نماز پڑھنا مکروہ تنز یہی ہے، کہ نمازی کے سامنے کسی ایسی چیز کا ہونا جس سے نمازی کا ذہن منتشر ہو ممنوع ہے۔

 لہذا اس صورت میں اس کے سامنے نماز پڑھنے سے احتراز کرنا چاہیے اور اگر کسی عذر کی وجہ سے اس کے سامنے نماز پڑھنا پڑے تو اس پر کپڑا وغیرہ ڈال کر چھپا دینا چاہیے، جد الممتار میں امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: "سئلت عمن صلی وامامہ مرآۃ فاجبت بالجواز آخذا مما ھاھنا، اذا المرأۃ لم تعبد ولا الشبح المنطبع فیھا، ولا ھو من صنیع الکفار، نعم، ان کان حیث یبدو لہ فیہ صورتہ وافعالہ رکوعا وسجودا وقیاما وقعودا وظن ان ذلک یشغلہ ویلہی فاذن لا ینبغی قطعا" کہ مجھ سے سوال کیا گیا اس شخص کے بارے میں جس نے نماز پڑ ھی اس حال میں کہ اس کے سامنے شیشہ ہو تو میں نے جائز ہونے کا جواب دیا، حکم جواز کو اس سے لیتے ہوئے جو یہاں ہے کیونکہ شیشے  کی عبادت نہیں کی جاتی اور نہ شیشے میں ڈھالی گئی صورت تصویر ہوتی ہے اور نہ یہ کفار کی بنائی ہوئی چیز میں سے ہے، البتہ شیشہ اس طرح ہو کہ اس شیشے میں اس کی صورت اور اسکے افعال رکوع و سجود اور قیام و قعود اس کے لئے ظاہر ہوں اور وہ گمان کرے کہ یہ اس کو غافل کردے گا اور وہ غافل ہوجائے گا تو اس وقت اس کے لئے شیشے کے سامنے نماز پڑھنا ہر گز مناسب نہیں ہوگا۔ (جدالممتار علی ردالمحتار  جلد ٣ صفحہ ١٧٠،کتاب الصلاۃ باب مايفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ،تجوز الصلاۃ مقابل المرأۃ، دار اھل السنۃ)

فتاوی امجدیہ میں ہے "آئینہ سامنے ہو تو نماز میں کراہت نہیں کہ سبب کراہت تصویر ہے اور وہ یہاں موجود نہیں اور اگر اسے تصویر کا حکم دیں تو آئینہ کا رکھنا بھی مثل تصویر ناجائز ہو جائے حالانکہ بالاجماع جائز ہے اور حقیقت امر یہ ہے کہ وہاں تصویر ہوتی ہی نہیں بلکہ خطوط  شعاعی آئینہ کی صقالت کی وجہ سے لوٹ کر چہرہ پر آتے ہیں گویا یہ شخص خود اپنے کو دیکھتا ہے نہ یہ کہ آئینہ میں اس کی صورت چھپتی ہو" (فتاوی امجدیہ،جلد اول صفحہ ١٨٤،باب مفسدات الصلاۃ)

حدیث شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : "انی کنت رأیت قرنی الکبش حین دخلت البیت، فنسیت ان آمرک ان تخمرھما، فخمرھما فانہ لا ینبغی ان یکون فی البیت شیئ یشغل المصلی" کہ جس وقت میں بیت اللہ میں داخل ہوا تو میں نے دنبے کے دو سینگ دیکھے، مجھے تجھ سے یہ کہنا یاد نہ رہا کہ انہیں ڈھانپ دے، پس تو ان کو ڈھانپ دے کیونکہ بیت اللہ میں ایسی کسی چیز کا ہونا مناسب نہیں ہے جو نمازی کو مشغول کردے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ٢٧، صفحہ ١٩٦، حديث ١٦٦٣٧،حديث امرأۃ من بنی سلیم، الرسالة) (سنن ابو داؤد کتاب المناسک ، باب في الحجر، حديث ٢٠٣٢)

ردالمحتار میں ہے: "بقی فی المکروھات اشیاء اخر ذکرھا فی المنیۃ ونور الإيضاح وغیرھا، منھا الصلاۃ بحضرۃ ما یشغل البال ویخل بالخشوع کزینۃ ولھو ولعب" مکروہات میں کچھ دوسری چیزیں باقی ہیں جن کو منیہ اور نور الایضاح وغیرہما میں ذکر کیا ہے، ان مکروہات میں سے ایک یہ ہے کہ کسی ایسی چیز کی موجودگی میں نماز ادا کرنا جو دل کو مشغول کرتی ہو اور خشوع میں خلل ڈالتی ہو جیسے زینت اور لہو و لعب۔ (ردالمحتار کتاب الصلاۃ باب مايفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ،تتمہ، جلد ١ صفحہ ٦٥٤،دار الفکر بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے : "بیشک دیوار قبلہ میں عام مصلیوں کے موضع نظر تک کوئی ایسی چیز نہ چاہئے جس سے دل بٹے اور ہو تو کپڑے سے چھپا دی جائے" (فتاوی رضویہ مترجم جلد ٨ صفحہ ١٢١،باب احکام المساجد ،مرکز اہل سنت برکات رضا)

وقار الفتاوی میں ہے "نمازیوں کے آگے اتنی اونچائی تک کہ خاشعین کی طرح نماز پڑھنے میں جہاں تک نظر آجاتا ہے شیشے لگانا یاکوئی ایسی چیز لگانا جس سے نمازی کا دھیان اور التفات ادھر جاتا ہو مکروہ ہے، لہٰذا اتنی اونچائی تک کے شیشے ہٹالینا چاہئے، ان شیشوں میں اپنی شکل جو نظر آتی ہے اس کے احکام تصویر کے نہیں، لہٰذا نماز مکروہِ تحریمی نہ ہوگی مگر مکروہِ تنزیہی ہے"۔ (وقار الفتاوی، کتاب المساجد ،جلد دوم صفحہ ١٥٨،بزم وقار الدین، گلستان مصطفی، کراچی)

       واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ؛ محمد اقبال رضا خان مصباحی سنی سینٹر بھنڈار شاہ مسجد پونہ وجامعہ قادریہ کونڈوا پونہ، ٢٦،صفر المظفر ١٤٤٥ھ /١٣،ستمبر ٢٠٢٣ء بروز بدھ

الجواب صحیح والمجیب نجیح،
خلیفۂ حضور تاج الشریعہ حضرت مفتی سید شمس الحق برکاتی مصباحی صاحب قبلہ دام ظلہ العالی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے