کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ ایک دیوبندی عالم ہے جوکہ غالبا پاکستان سے ہے اس کا کہنا ہے کہ شب معراج ستائیس رجب کو نہیں ہے پتہ نہیں کس مہینے میں ہے، اور اس کا کوئی روزہ وغیرہ بھی ستائیس رجب کو نہیں ہے یہ بدعت ہے، یہ کوئی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، اس لیے ستائیس رجب کو نہ روزہ رکھا جائے نہ شب بیداری کی جائے، لہذا علمائے کرام قرآن و حدیث سے اس کا جواب عنایت فرمائیں، فقط، سائل ،محمد عارفین رضوی، پونہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
واضح رہے کہ شب معراج کے سال، مہینے، دن اور تاریخ کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، تفصیل کے لیے دیکھیں امام ابن عسقلانی شافعی کی کتاب فتح الباری شرح البخاری کتاب مناقب الانصار ، باب المعراج ، جلد ٧ صفحہ ٢٠٣ ،دار المعرفۃ ، بیروت ،اور ملا علی قاری حنفی کی کتاب شرح الشفا جلد ١ صفحہ ٤٢٠/ ٤٢١،الباب الثالث فیما ورد من صحیح الاخبار الخ، فصل ابطال حجج من قال انھا نوم، دار الکتب العلمیۃ بیروت ، اور علامہ قسطلانی کی مواہب لدنیہ اور علامہ زرقانی مالکی کی شرح زرقانی، تابع المقصد الاول، وقت الإسراء، جلد ٢ صفحہ ٦٧ تا ٧٢، دار الکتب العلمیۃ ، وغیرہا ،تاریخ کے بارے میں ان مختلف اقوال میں سے ماہ رجب کی ستائیسویں رات کا قول علماء کا مختار، اور معمول بہ ہے، اور حرمین طیبین پر وہابی تسلط سے پہلے اسی تاریخ میں لوگ جمع ہوتے اور عبادت کیا کرتے تھے، چند حوالے درج ذیل ہیں، علامہ شہاب الدین قسطلانی متوفی ٩٢٣ھ مواهب لدنیہ میں مختلف اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں ہے "وقیل کان لیلۃ السابع والعشرین من رجب، واختارہ الحافظ عبد الغنی ابن سرور المقدسی" کہا گیا ہے کہ معراج رجب کی ستائیسویں میں شب میں ہوئی تھی اور اسے حافظ عبد الغنی ابن سرور مقدسی حنبلی (متوفی ٦٠٠ھ) نے اختیار کیا ہے، (المواھب اللدنية ،جلد ١ صفحہ ٢٧٥، وقت الاسراء، مرکز اہل سنت برکات رضا ،گجرات)
مواہب لدنیہ کی شرح زرقانی میں ابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی زرقانی مالکی متوفی ١١٢٢ھ فرماتے ہیں "وقیل کان لیلۃ السابع والعشرین من رجب ، وعلیہ عمل الناس، قال بعضھم وھو الاقوی ، فان المسألۃ اذا کان فیھا خلاف للسلف ولم یقم دلیل علی الترجيح واقترن العمل باحد القولین او الاقوال، وتلقی بالقبول فان ذلک مما یغلب علی الظن کونہ راجحا، ولذا اختارہ الحافظ عبد الغنی ابن عبد الواحد بن علی بن سرور المقدسی، فنسبه لجد ابيه الحنبلي الامام اوحد زمانه فى الحديث والحفظ الزاهد العابد صاحب العمدة والكمال"
کہا گیا ہے کہ معراج رجب کی ستائیسویں شب میں ہوئی ہے اور اسی قول پر لوگوں کا عمل ہے، بعض علماء نے کہا کہ یہی قول سب سے زیادہ قوی ہے، اس لیے کہ جب کسی مسئلہ میں اسلاف کا اختلاف ہو اور ترجیح کی کوئی دلیل نہ ہو اور دو قولوں یا چند قولوں میں سے کسی ایک قول کے ساتھ عمل ملا ہو اور اس کو لوگوں نے قبول کیا ہو تو یہ ان چیزوں میں سے ہے جن سے اس قول کے راجح ہونے کا ظن غالب ہوتا ہے، اسی لیے حافظ عبد الغنی ابن عبد الواحد بن علی بن سرور مقدسی نے اسے اختیار کیا ہے، جو اپنے زمانے میں علم حدیث اور حافظہ میں یکتا تھے، عابد و زاھد اور صاحب عمدہ و کمال تھے، (شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ ،جلد دوم،صفحہ ٧١ ،وقت الاسراء، مرکز اہل سنت برکات رضا ، گجرات)
علامہ احمد بن محمد بن اسماعیل طحطاوی حنفی متوفی ١٢٣١ھ حاشیۃ الطحطاوی میں فرماتے ہیں "ﻭﻗﻴﻞ ﻟﻴﻠﺔ ﺳﺒﻊ ﻭ ﻋﺸﺮﻳﻦ ﻣﻦ ﺭﺟﺐ ﻭﻋﻠﻴﻪ اﻟﻌﻤﻞ ﻓﻲ ﺟﻤﻴﻊ اﻷﻣﺼﺎﺭ ﻭﺟﺰﻡ ﺑﻪ اﻟﻨﻮﻭﻱ ﻓﻲ اﻟﺮﻭﺿﺔ ﺗﺒﻌﺎ ﻟﻠﺮاﻓﻌﻲ" کہا گیا ہے کہ معراج کی رات رجب کی ستائیسویں رات ہے اور تمام شہروں میں اسی پر عمل ہے، امام نووی نے رافعی کی اتباع میں روضہ میں اسی پر جزم کیا ہے، (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح کتاب الصلاۃ جلد ١ صفحہ ١٧٢،دار الکتب العلمیۃ بیروت)
علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی ١١٢٧ھ، تفسیر روح البیان میں فرماتے ہیں "وھی لیلۃ سبع و عشرین من رجب لیلۃ الاثنین وعلیہ عمل الناس " شب معراج ستائیس رجب کی رات ہے، یہ پیر کی رات ہے، اور اسی پر لوگوں کا عمل ہے، (تفسير روح البیان جلد ٥ صفحہ ١٠٣،تفسير سورۃ الاسراء،دار الفکر بیروت)
اسی میں ہے "وکان الإسراء لیلۃ السابع والعشرین من رجب علی ما علیہ الاکثر" معراج رجب کی ستائیسویں رات کو ہوئی تھی اسی پر اکثر لوگ ہیں، (تفسير روح البیان جلد ٨ صفحہ ٢٢٩،سورۃ النجم، الآیۃ ١٨،دار الفکر بیروت)
علامہ علی بن سلطان محمد ملا علی قاری حنفی متوفی ١٠١٤ھ شرح الشفا میں فرماتے ہیں "وروی السید جمال الدين المحدث فی روضۃ الاحباب انہ کا فی سبعۃ وعشرين من شهر رجب علی وفق ما ھم علیہ فی الحرمین الشریفین من العمل "محدث سید جمال الدین نے روضۃ الاحباب میں روایت کیا کہ معراج رجب کی ستائیس تاریخ میں ہوئی تھی جیسا کہ حرمین شریفین میں اسی پر عمل ہے، (شرح الشفا للعلامۃ ملا علی قاری جلد ١ صفحہ ٣٩٤،فصل فی تفضیلہ صلی اللہ علیہ وسلم بما تضمنتہ کرامۃ الاسراء، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
علامہ شیخ عبدالحق بخاری حنفی محدث دھلوی متوفی ١٠٥٢ھ لمعات میں فرماتے ہیں "والمشهور في السابعة والعشرين من رجب، وعليه عمل أهل المدينة فى الرجبية" مشہور قول یہ ہے کہ معراج ستائیس رجب میں ہوئی ہے اور اسی پر اہل مدینہ کا رجبیت میں عمل ہے، (یعنی اس شب میں عبادات (شب بیداری ) کرتے ہیں) (لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح للعلامة المحدث عبدالحق الدھلوی، کتاب الفضائل، باب فی المعراج، جلد ٩ صفحہ ٣٧٦،دار النوادر)
ابو الحسنات محمد عبد الحی بن محمد لکھنوی متوفی ١٣٠٤ھ، کتاب الآثار المرفوعۃ میں فرماتے ہیں "قد اشتہر بین العوام ان لیلۃ السابع والعشرین من رجب ھی لیلۃ المعراج النبوی وموسم الرجبیۃ متعارف فی الحرمین الشریفین یاتی الناس فی رجب من بلاد نائیۃ لزیارۃ القبر النبوی فی المدینۃ ویجتمعون فی اللیلۃ المذکورۃ ، وھو امر مختلف فیہ بین المحدثین والمؤرخین فقیل کان ذلک فی ربیع الاول وقیل فی ربیع الآخرۃ وقیل فی ذی الحجۃ وقیل فی شوال وقیل فی رمضان وقیل فی رجب فی لیلۃ السابع والعشرین وقواہ بعضهم " عوام میں مشہور ہے کہ رجب کی ستائیسویں رات معراج نبوی کی رات ہے اور حرمین شریفین میں رجبیت کا موسم متعارف و مشہور ہے، لوگ دور دراز کے علاقوں سے ماہ رجب میں مدینہ منورہ قبر نبوی کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور اس رات میں جمع ہوتے ہیں، حالانکہ معراج کی تاریخ محدثین اور مؤرخین کے درمیان مختلف فیہ ہے، کہا گیا ہے کہ معراج ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی ہے، بعض نے کہا ربیع الآخر میں ہے، بعض نے فرمایاذوالحجہ میں ہے، بعض نے فرمایا شوال میں ہے، بعض نے کا کہا رمضان المبارک میں ہوئی ہے، اور بعض نے ستائیس رجب کو شب معراج قرار دیا ہے اور علماء نے اسی (ستائیس رجب کی تاریخ) کو قوی ترین قرار دیا ہے، (كتاب الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة للعلامۃ محمد عبد الحی اللکنوی الھندی، صفحہ ٧٧، حديث صلاۃ الرغائب ،مکتبۃ الشرق الجدید، بغداد)
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے "وجزم الحافظ ابن حجر بانہ لیلۃالسابع والعشرین من رجب، وعلیہ عمل اھل الأمصار "
امام ابن حجر نے اس بات پر جزم کیا ہے کہ ستائیس (٢٧) رجب شب معراج ہے اور اسی پر اھل امصار ( مسلمانوں) کا عمل ہے، (كتاب الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي، بحث العبادات، الباب الثانی الصلاۃ ،الفصل الأول تعریف الصلوۃ الخ، جلد ١ صفحہ ٦٥٤،دار الفکر ، سوریہ ،دمشق)
دیوبندیوں اور وہابیوں کے مستند اور متفق علیہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری اپنی کتاب رحمۃ للعلمین میں لکھتے ہیں "زرقانی کہتے ہیں کہ امام ابن عبد البر اور امام ابو محمد عبد اللہ بن مسلم بن قتیبہ الدینوری اور امام نووی (تبعا للرافعی) نے معراج کے لیے ماہ رجب کا تعین کیا ہے، حافظ عبد الغنی بن عبد الواحد بن علی بن سرور المقدسی وفات ١٣،ربیع الآخر سنہ ٦٠٠ھ، نے ستائیسویں رجب کو جملہ اقوال پر ترجیح دی ہے، اور لکھا ہے کہ ہمیشہ سے عملا اسی تاریخ پر اتفاق کیا گیا ہے،مندرجہ بالا اقوال کا نتیجہ یہ ہوا کہ معراج ستائیسویں رجب سنہ ٥٢ ولادت نبوی کو ہوا تھا،میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے متعلق ٢٣ سالہ جنتری خود تیار کی ہے، اس سے ظاہر ہے کہ ماہ رجب سنہ ٥٢ کا پہلا دن جمعہ تھا، لہذا ستائیسویں رجب کی شب کے بعد طالع ہونے والا دن چہار شنبہ اور اسلامی طریق سے شب معراج بھی شب چہار شنبہ تھی، " (رحمۃ للعلمین جلد سوم صفحہ ١٢٦،خصوصیات نبویہ از احادیث مصطفویہ، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی)
علمائے کرام کے ان اقوال سے واضح ہے کہ شب معراج کا رجب کی ستائیسویں رات میں ہونا سب سے زیادہ قوی قول ہے اور امت نے اس قول کو قبول کیا ہے اور بشمول حرمین شریفین مختلف ممالک میں کئی سو سال سے امت مسلمہ کا اسی پر عمل ہے،اور اس میں شک نہیں ہے کہ امت کے کسی قول کو قبول کر لینے کی اسلام میں عظیم شان ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں "الفطر يوم يفطر الناس والأضحى يوم يضحي الناس" عیدالفطر اس دن ہے جس دن لوگ عید کریں اورعید الاضحی اسی دن ہے جس دن لوگ عید الاضحی منائیں، امام ترمذی فرماتے ہیں "حدیث حسن غریب صحیح ہے، (ترمذی کتاب الصوم، باب ماجاء فی الفطر والاضحی متی یکون، حدیث ٨٠٧)
یعنی مسلمانوں کا عید الفطر اور عید الاضحی کا دن اس دن ہے جس دن اکثر مسلمان خیال کریں،اگرچہ وہ واقع کے مطابق نہ ہو، اس کی نظیر قبلہ کی تحری ہے، اور قول وعمل اکثر مسلمین ہی کے مطابق بہتر ہے کہ بہترین و مناسب ترین عمل وہی ہے جس پر اکثر مسلمانوں کاعمل ہو، واضح رہے کہ اہل سنت وجماعت نے یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ رجب کی ستائیسویں رات کا شب معراج ہونا صحیح حدیث سے ثابت ہے،بلکہ اہل سنت وجماعت مختار و قوی اور امت کے معمول بہ قول پر عمل کرتے ہوئے ستائیسویں رجب کی رات کو شب معراج مناتے ہیں،اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے، جس طرح کے رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی کوئی بھی طاق رات شب قدر ہو سکتی ہے مگر اکثر لوگ رمضان المبارک کی ستائیسویں رات کو شب قدر مناتے ہیں، رہا رجب کی ستائیسویں رات میں عبادت کرنا اور دن میں روزہ رکھنا تو اس کا ذکر احادیث میں موجود ہے، چنانچہ امام احمد بن حسین ابو بکر بیہقی متوفی ٤٥٨ھ، اپنی کتاب شعب الايمان میں روایت کرتے ہیں "عن سلمان الفارسي قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في رجب يوم وليلة من صام ذلك اليوم وقام تلك الليلة كان كمن صام من الدهر مائة سنة وقام مائةسنة وهو ثلاث بقين من رجب وفيه بعث الله محمدا (صلى الله عليه وسلم) "وروي ذلك باسناد آخر اضعف من هذا،
کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رجب کے مہینے میں ایک دن اور رات ایسی ہے کہ جو اس دن کا روزہ رکھے اور رات نفل پڑھنے میں گزارے تو اسے ایک سو سال کے روزوں اور سو سال کی شب بیداری کے برابر ثواب ملے اور وہ رجب کی ستائیسویں تاریخ ہے، اسی تاریخ میں اللہ تعالی نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مبعوث فرمایا، امام بیہقی نے کہا کہ اسے دوسری سند سے بھی رایت کیا گیا ہے جو اس سے زیادہ ضعیف ہے، (شعب الايمان للبيهقى جلد ٥ صفحہ ٣٤٥، تخصيص شهر رجب بالذكر, حديث نمبر ٣٥٣٠،مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع ،ریاض) (الفردوس بماثور الخطاب ، باب الفاء جلد ٣صفحہ ١٤٢، حديث ٤٣٨١،دار الکتب العلمیۃ بیروت)(کنز العمال جلد ١٠ صفحہ ٣١٢،الفصل الثانی فی فضائل الازمنۃ و الشہور،حديث ٣٥١٦٩)
دوسری روایت یہ ہے "عن انس عن النبي صلى الله عليه و سلم انه قال في رجب ليلة يكتب للعامل فيها حسنات مائة سنة وذلك لثلاث بقين من رجب فمن صلى فيها اثنتي عشرة ركعة يقرأ في كل ركعة فاتحة الكتاب وسورة من القرآن يتشهد في كل ركعتين ويسلم في آخرهن ثم يقول سبحان الله والحمد لله ولا اله الا الله والله اكبر " مائة مرة ويستغفر الله مائة مرة ويصلي على النبي صلى الله عليه وسلم مائة مرة ويدعو لنفسه ما شاء من امر دنياه وآخرته ويصبح صائما فان الله يستجيب دعاءه كله الا ان يدعو في معصية" حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رجب کے مہینے میں ایک رات ہے کہ اس میں نیک عمل کرنے والے کو سو سال کی نیکیوں کا ثواب ہے اور وہ رجب کی ستائیسویں رات ہے جواس رات میں بارہ رکعت نفل نماز پڑھے اس طرح کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ اور ایک دوسری سورت پڑھے اور ہر دو رکعت پر التحیات پڑھے اور آخر میں " سبحان الله والحمد لله ولا اله الا الله والله اكبر" سو بار پڑھے، سو بار استغفار، سو بار درود شریف پڑھے اور اپنی دنیا وآخرت سے جس چیز کو چاہے دعا مانگے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالی اس کی سب دعائیں قبول فرمائے سوائے اس دعا کے جو گناہ کے لئے ہو (شعب الايمان للبيهقى، جلد ٥ صفحہ ٣٤٦، تخصيص شهر رجب بالذكر، حديث نمبر ٣٥٣١، مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع ،ریاض) (کنز العمال جلد ١٠ صفحہ ٣١٢،الفصل الثانی فی فضائل الازمنۃ و الشہور،حديث ٣٥١٧٠)
علامہ نور الدين علی بن محمد بن علی بن عبد الرحمن ابن العراق الکنانی متوفی ٩٦٣ھ، تنزیہ الشریعۃ میں فرماتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "بعثت نبیا فی السابع و العشرین من رجب فمن صام ذلک الیوم کان لہ کفارۃ ستین شھرا" (اسنادہ منکر) ستائیس رجب کو مجھے مبعوث کیا گیا جو اس دن کا روزہ رکھے تو وہ اس کے لیے ساٹھ مہینوں کا کفارہ ہو،( اس کی اسناد منکر ہے) (تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاخبار الشنیعۃ الموضوعۃ،کتاب الصوم ، الفصل الثالث ،جلد ٢ صفحہ ١٦١،دار الکتب العلمیۃ بیروت)
اسی میں حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے موقوفا روایت ہے، "من صام یوم سبع و عشرین من رجب کتب اللہ لہ صیام ستین شھرا، وھو الیوم الذی ھبط فیہ جبرئیل علی محمد بالرسالۃ " جو ستائیس رجب کا روزہ رکھے تو اللہ تعالی اس کے لیے ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھے،اور یہ وہ دن ہے جس میں جبرئیل علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پیغام لے کر اترے، (تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاخبار الشنیعۃ الموضوعۃ ،کتاب الصوم الفصل الثالث ،جلد ٢ صفحہ ١٦١،دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی اس روایت کو
ابو محمد الحسن بن محمد بن الحسن بن علی البغدادی الخلال المتوفی ٤٣٩ھ، نے اپنی کتاب فضائل شہر رجب میں بھی روایت کیا ہے، (فضائل شہر رجب جلد ١ صفحہ ٧٦،حديث ١٨، دار ابن حزم)
علامہ نور الدين ابن عراق الکنانی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت کے بارے میں کہتے ہیں " وھذا امثل ما ورد فی ھذا المعنی" یہ(روایت ) ان سب روایتوں سے بہتر ہے جو اس باب میں آئیں، (تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاخبار الشنیعۃ الموضوعۃ ،کتاب الصوم الفصل الثالث ، جلد ٢ صفحہ ١٦١،دار الکتب العلمیۃ بیروت)
اسی طرح علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے ما ثبت بالسنۃ میں کہا ہے، (ما ثبت بالسنۃ مع اردو ترجمہ ذکرماہ رجب ادارہ نعیمیہ رضویہ لال کھوہ موچی گیٹ لاہور صفحہ ٢٣٤)
اول الذکر شعب الايمان کی دونوں روایتوں کو امام بیہقی نے ضعیف قرار دیا ہے فرماتے ہیں "وروي ذلك باسناد آخر اضعف من هذا" اور اسے دوسری سند سے روایت کیا گیا ہےجو اس سے زیادہ ضعیف ہے، (شعب الايمان للبيهقى جلد ٥ صفحہ ٣٤٥)
علامہ عبد الرحمن بن ابی بکر جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ھ، نے ان دونوں روایتوں کو تفسیر در منثور میں روایت کیا اور امام بیہقی کی تضعیف کو بر قرار رکھتے ہوئے انہیں ضعیف قرار دیا ہے، (الدر المنثور فی التفسیر الماثور جلد ٤ صفحہ ١٨٦،تحت الآیۃ ٣٦، من سورۃ التوبۃ،دار الفکر بیروت)
علامۃ ابو القاسم علی بن الحسن بن ھبۃ اللہ المعروف بابن عساکر (متوفی ٥٧١ھ) نے اپنی کتاب فضل رجب میں ان دونوں کو روایت کرنے کے بعد کہا "ھذا الحدیث والذی قبلہ غریبان" یہ حدیث اور اس سے پہلے والی حدیث دونوں غریب ہیں، (فضل رجب لابن عساکر جلد ١ صفحہ ٣١٥،حديث ١١/ ١٢،مؤسسۃ الریان ، بیروت)
ان کے علاوہ دیگر حضرات نے بھی انہیں ضعیف قرار دیا ہے، پس معلوم ہوا کہ یہ حدیثیں موضوع و من گھڑت نہیں ہیں بلکہ ضعیف ہیں، اور تمام علماء کا اس بات پر اتفاق و اجماع ہے کہ ترغیب وترهيب اور فضائل و مناقب میں ضعیف حدیث مقبول ہے اور اس پر عمل کرنا جائز و مستحب ہے، شارح مسلم امام ابو زکریا محی الدین یحی بن شرف نووی شافعی متوفی ٦٧٦ھ، فرماتے ہیں " وقد اتفق العلماء على جواز العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال" علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے، (الاربعین للنووی جلد ١ صفحہ ٤٢/ ٤٣)
یہی امام نووی علیہ الرحمۃ دوسری جگہ فرماتے ہیں " قال العلماء من المحدثین و الفقهاء وغيرهم يجوز ويستحب العمل في الفضائل والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعا" محدثین علماء اور فقہاء وغیرہم نے فرمایا کہ فضائل اعمال اور ترغیب وترهيب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ومستحب ہے جب تک وہ موضوع نہ ہو ، (الأذكار للنووی جلد ١ صفحہ ٨)
امام نووی رحمہ اللہ کا یہ قول علامہ شمس الدين ابو الخیر محمد بن عبد الرحمن سخاوی متوفی ٩٠٢ھ، القول البدیع میں نقل کیا ہے، (القول البديع فى الصلوة على الحبيب الشفيع ،خاتمہ، جلد ١ صفحہ ٢٥٥،دار الریان للتراث)
امام سخاوی اسی میں فرماتے ہیں "فیحصل ان فی الضعيف ثلاثۃ مذاھب لا یعمل بہ مطلقا، ویعمل بہ مطلقا اذا لم یکن فی الباب غیرہ ،ثالثھا ھو الذی علیہ الجمھور یعمل بہ فی الفضائل دون الاحکام"
حاصل یہ کہ ضعیف حدیث کے بارے میں تین مذہب ہیں، ضعیف پر مطلقا عمل نہیں کیا جائے گا، دوسرا یہ کہ جب اس باب میں ضعیف کے علاوہ کوئی اور حدیث نہ ہو تو ضعیف حدیث پر مطلقا عمل کیا ہے گا، اور تیسرا جو کہ جمہور کا مذہب ہے وہ یہ ہے کہ ضعیف حدیث پر فضائل میں عمل کیا جائے گا، احکام میں نہیں، (القول البديع فى الصلوة على الحبيب الشفيع ، خاتمہ، جلد ١ صفحہ ٢٥٦،دار الریان للتراث)
اسی میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بارے میں لکھتے ہیں "یعمل بالضعیف اذا لم یوجد غیرہ ولم یکن ثم ما یعارضہ" کہ وہ ضعیف حدیث پر عمل کرتے ہیں جب کہ اس کے علاوہ کوئی اور حدیث نہ پائی جاتی ہو اور وہاں کوئی چیز اس کے معارض نہ ہو، (القول البديع فى الصلوة على الحبيب الشفيع ، خاتمہ، جلد ١ صفحہ ٢٥٥،دار الریان للتراث)
علامۃ شیخ الاسلام ابو العباس شہاب الدین احمد بن محمد بن علی بن حجر الہیتمی المتوفی ٩٧٤ھ ،در منضود میں فرماتے ہیں "قال النووی رحمہ اللہ تعالی فی اذکارہ قال العلماء من المحدثین و الفقهاء وغيرهم يجوز ويستحب العمل في الفضائل والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعا" امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب الاذکار میں فرمایا کہ محدثین علماء اور فقہاء وغیرہم نے فرمایا کہ فضائل اعمال اور ترغیب وترهيب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ومستحب ہے جب تک وہ موضوع نہ ہو ، (الدر المنضود فی الصلاۃ والسلام علی صاحب المقام المحمود، خاتمۃ، فی العمل بالحديث الضعيف والموضوع، جلد ١ صفحہ ٢٥٩،دار المنھاج ،جدۃ)
رجب کی ستائیسویں رات میں عبادت اور دن میں روزہ رکھنے کی فضیلت جب احادیث میں موجود ہے تو اسے بدعت قرار دے کر قوم کو گمراہ کرنا بڑی جہالت اور قوم کو نیکی سے روکنے کے مترادف ہے، اور ایسے لوگ " مناع للخیر" میں داخل ہیں، امام نووی شافعی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں "اعلم انه ينبغي لمن بلغه شيئ في فضائل الأعمال ان يعمل به ولو مرة واحدة ليكون من اهله ولا ينبغي ان يتركه مطلقا بل يأتي بما تيسر منه لقول النبي صلى الله عليه وسلم في الحديث المتفق على صحته اذا امرتكم بشيئ فأتوا منه ما استطعتم" جان لو کہ جس شخص کو کوئی ایسی حدیث پہنچے جس میں کسی عمل کی فضیلت بیان کی گئی ہو تو مناسب ہے کہ وہ اس پر عمل کرے اگرچہ ایک بار ہی ہو تاکہ وہ اس کا اھل ہو سکے اور مطلقاً اس کو چھوڑ دینا مناسب نہیں ہے بلکہ جتنا میسر ہو اس پر عمل کرے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صحیح ارشاد کی وجہ سے کہ جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو تم سے جہاں تک ہو سکے اس پر عمل کرو، (کتاب الاذکار للنووی جلد ١ صفحہ ٨)
امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی طوسی متوفی ٥٠٥ھ، نے احیاء العلوم میں ستائیس رجب کی رات میں عبادت کرنے اور دن میں روزہ رکھنے کو مستحب قرار دیا ہے، اور دلیل میں یہی حدیثیں پیش کی ہیں، (احیاء علوم الدین جلد ١ صفحہ ٣٦١،فضیلۃ قیام اللیل، بیان اللیالی والایام الفاضلۃ، دار المعرفۃ ، بیروت )
نیز اگر حدیث میں رجب کی ستائیسویں رات میں عبادت کرنے اور دن میں روزہ رکھنے کا ذکر نہ بھی ہوتا تب بھی اس رات میں قیام اور دن میں روزہ رکھنا جائز ہوتا، اس لیے کہ کسی بھی رات میں نفل عبادت کرنا اور دن میں نفل روزہ رکھنا جائز ہے سوائے ان راتوں اور دنوں کے جن میں شریعت مطہرہ کی طرف سے ممانعت وارد ہوئی ہے، جیسے شب جمعہ کو قیام کے لیے خاص کرنا اور جمعہ کے دن کو روزے کے ساتھ خاص کرناکہ اس سے منع کیا گیا ہے، صحیح البخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ کے دن مسجد قبا تشریف لے جاتے تھے،( صحیح البخاری کتاب فضل الصلوۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ ،باب مسجد قبا،حدیث ١١٩٣)
اس حدیث کے تحت علامہ بدر الدين عینی حنفی متوفی ٨٥٥ھ، فرماتے ہیں"وفیہ دلیل علی جواز تخصیص بعض الایام بنوع من القرب وھو کذلک الا فی الأوقات المنھی عنھا کالنھی عن تخصیص لیلۃ الجمعۃ بقیام من بین اللیالی او تخصیص یوم الجمعۃ بصیام من بین الایام" اس حدیث میں اس بات پر دلیل ہے کہ بعض ایام کو عبادت کے لیے خاص کرنا جائز ہے، سوائے ان اوقات کے جن سے منع کر دیا گیا ہے جیسے راتوں میں سے جمعہ کی رات کو قیام کےساتھ مخصوص کرنے یا دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے مخصوص کرنے سے ممانعت ہے، (عمدۃ القاری شرح البخاری کتاب فضل الصلوۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ ،باب مسجد قبا، جلد ٥ صفحہ ٥٧٣)
اس کے علاوہ شب معراج میں نفل عبادت کرنا اور دن کو روزہ رکھنا اس لیے بھی جائز ہے کہ اس رات میں نماز جیسی عظیم عبادت ملی ہے اور ایک نماز پر پچاس کا ثواب دیا گیا ہے تو اس عطا و انعام کے شکرانہ کے طور پر رات میں عبادت اور دن میں روزہ رکھنا جائز ہے، جیسا کہ علامہ محمد عبد الحی لکھنوی فرماتے ہیں "فیستحب احیاء لیلۃ السابع و العشرین من رجب ، و کذا سائر اللیالی التی قیل انھا لیلۃ المعراج بالاکثار فی العبادۃ شکرا لما من اللہ علینا فی تلک اللیلۃ من فرضیۃ الصلوات الخمس وجعلها فی الثواب خمسین، ولما افاض اللہ علی نبینا فیھا من اصناف الفضیلۃ والرحمۃ وشرفه بالمواجهة و المكالمة والرؤية " رجب کی ستائیسویں رات میں کثرت عبادت کے ساتھ شب بیداری کرنا مستحب ہے ، اور اسی طرح ان تمام راتوں میں شب بیداری کرنا مستحب ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ معراج کی راتیں ہیں، اس کے شکر کے طور پر جو اللہ تعالی نے ہم پر اس رات میں پانچ نمازوں کو فرض فرما کر احسان فرمایا اور ان کو ثواب میں پچاس کے برابر بنایا، اور اس لیے کہ اللہ تعالی نے اس رات میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مختلف فضیلتوں اور رحمتوں کا فیضان فرمایا، اور مواجہت، ہم کلامی اور رؤیت سے مشرف فرمایا، (کتاب الآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ ، للعلامۃ محمد عبد الحی اللکنوی الھندی ،صفحہ ٧٧ ،حديث صلاۃ الرغائب ، مکتبۃ الشرق الجديد ، بغداد)
ھذا ما ظھر لی والله تعالى اعلم بالحق والصواب
محمد اقبال رضا خان مصباحی ، سنی سینٹر بھنڈار شاہ مسجد پونہ وجامعہ قادریہ کونڈوا پونہ ٢٦،رجب المرجب ١٤٤٥ھ / ٧،فروری ٢٠٢٤ء، بروز بدھ
0 تبصرے