السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسٔلہ میں کہ گھوڑے کا گوشت کھانا حلال ہے یا حرام ہے؟ سائل صــدرعالم کشی نـگر۔ یوپی
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجــوابـــــــــــ بعون الملک الوہاب
اللھم ھدایتہ الحق والصواب
گھوڑے کا گوشت کھانا حرام ہے اس لئے کہ اللہ سبحانہ تعالی نے گھوڑے کی تخلیق کھانے کیلئے نہیں فرمائی ہے بلکہ سواری ، بار برداری اور آرائش کیلئے فرمائی ، وحشی گدھا یعنی نیل گائے بالاتفاق حلال ہے، پالتو گدھے کی حرمت میں گفتگو ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک گدھا حرام ہے۔ حضرت شریح، حسن، عطا ابن ابی رباح، سعید ابن جبیر، حماد ابن ابی سلمہ سے مروی ہے کہ وہ اسے حلال کہتے ہیں۔ (مرقات) مگر عام فقہاء مجتہدین حرام کہتے ہیں، ان کی دلیل یہ ہی حدیث ہےاور یہ آیت "وَالْخَیۡلَ وَ الْبِغَالَ وَالْحَمِیۡرَ لِتَرْکَبُوۡہَا وَزِیۡنَۃً"۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گھوڑے، خچر، گدھے کھانے کے لیے نہیں بلکہ سواری باربرداری اور آرائش کے لیے ہیں، اس لیے آیت کریمہ میں گھوڑے، کھچر اور گدھوں کو ملاکر بیان فرمایا ہے اور ان تینوں کا ایک ہی مقصد بیان فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ یہ تینوں جانور حرام ہیں، یہ ہی امام اعظم کا مذہب ہے پہچان: حرام و حلال جانور پہچاننے کے لیے قاعدہ یہ ہے کہ دریائی جانور سارے حرام ہیں سواء مچھلی کے، خشکی کے بے خون والے جانور سارے حرام ہیں سوا ٹڈی کے۔ خون والے خشکی کے جانور دو قسم کے ہیں: پرندے اور چرندے۔ پرندے جانور شکاری پنجے والے حرام ہیں، باقی حلال۔ چرندے جانوروں میں کیڑے مکوڑے حرام ہیں جیسے سانپ چوہے گوہ وغیرہ ان کے علاوہ کیل والے شکاری جانور حرام ہیں باقی حلال ہیں، یہ ہی مذہب حنفی ہے۔ (مُتَّفق عَلَيْهِ) وَعَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ وَأَذِنَ فِي لُحُومِ الْخَيْلِ روایت ہے حضرت جابر سے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خیبر کے دن پالتو گدھوں کے گوشتوں سے منع فرمایا ۱؎ اور گھوڑوں کے گوشتوں کی اجازت دی(مسلم،بخاری)
یعنی شروع اسلام میں گدھا پالتو حلال تھا، غزوہ خیبر میں قیامت تک کے لیے حرام کردیا۔ اس خیبر میں عورتوں سے متعہ حرام ہوا اس کی حرمت بھی تاقیامت ہے۔ گھوڑے کی حلت میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام شافعی، احمد اور صاحبین کے نزدیک حلال ہے، یہ حدیث حلال فرمانے والوں کی دلیل ہے۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل وہ آیت کریمہ ہے جو پچھلی حدیث میں ہم نے عرض کی کہ رب تعالٰی نے گدھا، خچر، گھوڑا ان تینوں کو جمع فرما کر فرمایا" لِتَرْکَبُوۡہَا وَزِیۡنَۃً " کہ یہ تینوں جانور سواری اور زینت کے لیے پیدا فرمائے۔ معلوم ہوا کہ ان تینوں میں سے کوئی کھانے کے لیے نہیں مگر چونکہ گھوڑے کی حرمت شرافت وکرامت کی بناء پر ہے اس لیے اس کا جھوٹا پاک ہے جیسے انسان کہ اس کا گوشت حرام مگر جھوٹا پاک، نیزابوداؤد ،نسائی، ابن ماجہ نے حصرت خالد ابن ولید سے روایت کی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے گھوڑے، خچر اورگدھے کے گوشتوں سے منع فرمایا، نیز نسائی شریف نے حضرت سلمہ ابن نفیل سکونی سے روایت کی کہ حضور نے گھوڑے کو ذلیل کرنے اور اس پر ذلت سے بوجھ لادنے سے منع فرمایا۔
اس حدیث کے چند جواب دیئے ایک یہ کہ یہ حدیث منسوخ ہے اس کی ناسخ وہ ہی حدیث خالد ہے جو ابھی عرض کی گئی۔ دوسرے یہ کہ گھوڑے کے متعلق حلت و حرمت دونوں کی روایات ہیں اور جب حلت و حرمت میں تعارض ہو تو حرمت کو ترجیح ہوتی ہے۔ تیسرے یہ کہ یہاں اذن بمعنی رخص ہے بلکہ بعض روایات میں رخص ہی ہے لہذا مطلب یہ ہوا کہ غزوہ خیبر میں ایک ضرورت کی وجہ سے گھوڑا کھانے کی اجازت دی یہ اجازت خصوصی تھی۔ چوتھے یہ کہ اگر گھوڑا گائے بھینس کی طرح حلال ہوتا تو اس کی قربانی بھی جائز ہوتی، حالانکہ اس کی قربانی کسی نے جائز نہ کی۔ پانچویں یہ کہ حضور اور خلفاء راشدین سے گھوڑا کھانا کبھی ثابت نہیں۔ خیالرہے کہ پہلے گھوڑا وحشی جانور تھا، حضرت اسمعیل علیہ السلام نے سب سے پہلے اس پر سواری کی جب سے یہ جانور پالتو ہوا۔ (مرقات و اشعہ) بہرحال گھوڑے کے متعلق مذہب امام اعظم میں احتیاط ہے اور باقی مذاہب میں گنجائش۔ خیال رہے کہ صحابہ کرام میں سواء حضرت ابن عباس کے کوئی صحابی گدھے کی حلت کے قائل نہیں ( مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ج ۵ ص ۷۵۱)
واللہ تعالیٰ اعلـم بالصــواب
کتبـــــہ؛ العبد العثیم خاکسار حضرت علامہ مولانا ابو الصدف محمد صادق رضا صاحب قبلہ مقام؛ سنگھیا ٹھاٹھول (پورنیہ)
✅الجـــواب صحیح والمجیبـــ نجیح
فقیرابو محمد محمد اسماعیل خان امجدی قادری رضوی ارشدی حنفی گونڈوی
فدایان مسلک اعلیٰ حضرت گروپ
0 تبصرے