جب دیہات میں جمعہ کی نماز جائز نہیں تو کیا دیہاتی شہر میں جا کر جمعہ پڑھیے گے؟


السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے  میں دیہات میں جمعے کی نماز نہیں ہوتی ہے تو کیا ظہر کی نماز جماعت سے پڑھ سکتے ہیں یا نہیں یا اس جگہ جانا پڑھ جہاں جمعے کی نماز ہو ؟ نوٹ_ دیہات میں جمعه کی نماز جماعت سے پڑھ سکتے ہیں کی نہیں قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔ ؟ سائل_محمد شرافت حسین  جامتارا جھارکھنڈ انڈیا؟ 

نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل
جس دیہات میں اتنے مسلمان  مرد ،عاقل بالغ ایسے تندرست جن پر جمعہ فرض ہو سکے آباد ہوں کہ اگر وہ وہاں کی بڑی سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو نہ سما سکیں یہاں تک کہ انہیں جمعہ کے لئے مسجد جامع بنانی پڑے ، وہ صحت جمعہ کے لئے شہر سمجھی جائے گی ایسے دیہات میں جمعہ جائز یے ورنہ نہیں۔ 1/ سب سے پہلی بات جس دیہات میں جمعہ کی نماز ہو رہی ہو وہاں جمعہ بند نہیں کریں گے۔ پر دیہات میں نیا جمعہ قائم نہیں کریں گے۔ 

2/ دیہاتی پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ان پر ظہر کی نماز فرض ہے اگرچہ دیہات میں جمعہ کی نماز پڑھ لے ۔ دیہاتی پر شہر میں جاکر جمعہ کی نماز پڑھنا ضروری نہیں پر جمعہ کے دن اگر شہر میں کسی کام سے جائے تو جمعہ کی نماز پڑھیں گے ظہر  کی فرض نہیں۔ پڑھیں گے 

3/ جس دیہات میں جمعہ کی نماز ہو رہی ہو ہھر بھی ظہر کی نماز کی جماعت کریں گے جبکہ کوئی فتنہ نہ ہو البتہ دیہاتی پر ظہر کی نماز جماعت سے یا تنہا پڑھنا ضروری ہے اگر جماعت میں فتنہ ہو تو ظہر کی جماعت نہ کرے خواص خود ظہر کی نماز پڑھ لیں۔

فتاوی رضویہ میں ہے" ہاں ایک روایت نادرہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے یہ آئی ہے کہ جس آبادی میں اتنے مسلمان  مرد ،عاقل ،بالغ ایسے تندرست جن پر جمعہ فرض ہو سکے آباد ہوں کہ اگر وہ وہاں کی بڑی سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو نہ سما سکیں یہاں تک کہ انہیں جمعہ کے لئے مسجد جامع بنانی پڑے ، وہ صحت جمعہ کے لئے شہر سمجھی جائے گی جس گاؤں میں یہ حالت پائی، جائے اس میں اس روایت نوادر کی بنا پر جمعہ وعیدین ہو سکتے ہیں اگرچہ اصل مذہب کے خلاف ہے مگر اسے بھی ایک جماعت متاخرین نے اختیار فرمایا اور جہاں یہ بھی نہیں وہاں ہر گز جمعہ خواہ عید مذہب حنفی میں جائز نہیں ہو سکتا بلکہ گناہ ہے(فتاوی رضویہ شریف جلد ہشتم (۸) باب الجمعة صفحہ (۳۴۷) مکتبہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

اور ایسی جگہ جہاں جمعہ پڑھنا جائز نہیں ہے ، وہاں ظہر کی نماز کے بارے میں فتاوی شامی میں ہے *لو صلوا فی القری لزمھم أداء الظھر،* یعنی اگر لوگ ایسےگاؤں میں جہاں جمعہ جائز نہیں جمعہ ادا کریں تو ان پر ظہر کی نماز ادا کرنا ہی ضروری ہے ۔(رد المحتار معہ در مختار جلد سوم (۳) باب  صلاۃ الجمعہ صفحہ (۹) مکتبہ، ‌دار عالم الكتب للطباعة والنشر والتوزيع الرياض.)

فتاوی فیض الرسول میں ہے " دیہات میں جمعہ کی نماز پڑھنا مذہب حنفی میں جائز نہیں لیکن عوام اگر پڑھتے ہوں تو منع نہ کر یں گے کہ شاید اس طرح اللہ ورسول کا نام لے لینا ان کے لیے ذریعہ نجات ہو جاۓ گا۔ مزید اسی صفحہ پر ہے۔ دیہات میں جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے، لیکن عوام اگر پڑھتے ہوں تو انہیں منع نہ کیا جائے، کہ وہ جس طرح بھی اللہ و رسول کا نام لیں غنیمت ہے۔ (فتاوی فیض الرسول جلد اول (۱) باب صلوة الجمعه۔ صفحہ (۴۰۶) مکتبہ شبیر برادرز اردو بازار لاہور)

اور فتاوی مفتی اعظم میں ہے کہ: گاؤں میں جمعہ ناجائز ہے ، جہاں ہوتا ہو وہاں روکا نہ جائے کہ فتنہ ہے ، نیز یہ کہ وہ اتنے سے بھی جائیں گے واللہ تعالی اعلم ۔ انہیں آہستہ آہستہ اس کی تلقین کی جاۓ کہ وہ ظہر بھی پڑھ لیں ۔ مزید، وہ ظہر بھی جماعت ہی سے پڑھنے کو کہا جاۓ کہ بے عذر ترک جماعت گناہ ہے ۔(فتاوی مفتی اعظم جلد سوم (۳) کتاب الصلاۃ صفحہ (۱۲۱ تا ۱۲۲) مکتبہ، امام احمد رضا اکیڈمی صالح نگر، بریلی شریف)

حاصل کلام یہ ہے روایت نادرہ پر دیہات میں جمعہ مذکور شرطوں پر صحیح و درست ہے۔ اور اگر روایت نادرہ کے مطابق جمعہ قائم کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اگر وہاں جمعہ جاری ہو چکا ہے۔ اور یہ اندیشہ ہو کہ بند کردیا  جائے گا تو فتنہ و فساد ہوگا تو اُن کیلئے حکم شرعی یہ ہے کہ وہاں پر جمعہ بند نہ کیا جائے لیکن جمعہ کی نماز پڑھ لینے کے بعد ظہر کی نماز باجماعت پڑھنا وہاں کے لوگوں پر واجب ہے۔ اسلئے کہ بے عذر ترک جماعت گناہ ہے۔پر فتنہ کی وجہ سے خواص ظہر تنہا پڑھیں گے جماعت نہیں گے۔ ۔

والله ورسوله أعلم بالصواب 
كتبه محمد مجیب قادري لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے