السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسٔلہ ذیل کے بارے میں نبیوں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم براق پر سوار ہو کر اللہ کےقرب میی تشریف لے گئے یا اور کسی چیز پر سوار ہو کر تشریف لے گئے ۔ قران وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں؟ ساںٔل نورالدین قادری امیٹوی انڈیا
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
اقا علیہ السلام سفر معراج میں مختلف سواری پر سوار ہوئے جس میں براق بھی یے حضور صلی اللہ علیہ وسلم برق رفتار براق پر۔سوار۔ہو کر پل بھرمیں آسمانوں پر پہنچے تو یہ انبیاء پہلے پہنچ کر وہاں استقبال کے لیے حاضر تھے۔ اس کی پوری بحث کتاب جاءالحق حصہ اول میں ملاحظہ فرمائیں (المرأة المناجیح ج 2 ص 363 مکتبہ المدینہ)
مختصر ملاحظہ فرمائیں
معراج کی رات رب تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کے لیے جو سواری بذریعہ جبریل علیہ السلام بھیجا اس کا نام براق ہے براق ایک سفید جانور تھا جو خچر سے پست اور گدھے سے اونچا تھا منتہائے نظر پراس کا قدم پڑتا تھا۔
معراج کی رات براق کی سواری کے بابت امام علائی نی اپنی تفسیر میں تحریر فرمایا ہے کہ معراج میں حضور ﷺ نے پانچ قسم کی سواریوں پر سفر فرمایا ،1/ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس براق پر 2/ بیت المقدس سے آسمان تک نور کی سیڑھیوں پر ۔۔۔۔۔ 3/ آسمان اول سے ساتویں آسمان تک فرشتوں کے بازوؤں پر ، 4/ ساتویں آسمان سے سدرہ المنتہیٰ تک حضرت جبریل علیہ السلام کے بازوؤں پر۔ 5/ سدرۃ المنتہیٰ سے مقام قاب قوسین تک رف رف پر (تفسیر روح المعانی)
حدیث شریف ہے کہ مجھے سوار کیا گیا اور حضرت جبریل علیہ السلام مجھے آسمان پر لے گئے۔ حدیث پاک سے یہ بات ثابت ہے کہ مکہ مکرمہ سے حضور ﷺ آسمان تک براق پر سواری کیے اور وہ براق ہوا پر بھی اسی طرح چلتا تھا جیسا کہ زمین پر چلتے تھے۔
براق کا ہوا پر چلنا عادت کے خلاف ہے جب آدمی ہوا پر نہیں چل سکتا تو براق وہ تو ایک جانور ہے ہوا پر کیسے چلا؟ یہ سب قدرتِ الہٰی کے ہاتھ میں اور خدا کی قدرت عادت کے خلاف ہونے میں مقید نہیں ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ براق کے دو بازو تھے جن سے وہ اڑتا تھا اور بعض حضرات کہتے ہیں براق پر سورای مسجد اقصیٰ تک تھی۔ اس کے بعد معراج ایک سیڑھی کے ذریعے آسمان پر لے جایا گیا ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ سفر معراج میں نبی کریم ﷺنے مکہ مکرمہ سے مسجد اقصیٰ تک ایک براق پر سواری فرمائی، اور بیت المقدس سے آسمانوں کی سیر کے لیے ایک روایت کے مطابق ایک سیڑھی کے ذریعے تشریف لے گئے تھے جو جنت کے زمرد اور زبرجد سے بنی ہوئی تھی،اور ایک قول یہ ہے کہ حسب سابق براق پر ہی سوار ہوکر آسمانوں کی جانب تشریف لے گئے تھے۔خلاصہ یہ ہے صعود الی السماء کے سلسلہ میں دونوں طرح کے اقوال موجود ہیں ایک قول کے مطابق براق پر ہی تشریف لے گئے تھے اور ایک قول کے مطابق جنت سے ایک خوبصورت سیڑھی لائی گئی اس کے ذریعے تشریف لےگئے، اس قول کو زیادہ ترجیح دی گئی ہے ۔
لوامع الانوار البھیۃ میں ہے
ولما أراد صلى الله عليه وسلم العروج إلى السماء بعد وصوله إلى البيت المقدس ، وصلاته بالأنبياء عليهم السلام أتي بالمعراج الذي تعرج عليه أرواح الأتقياء من بني آدم ، فلم تر الخلائق أحسن منه ، له مرقاة فضة ، ومرقاة من ذهب ، وهو من جنة الفردوس منضد باللؤلؤ ، عن يمينه ملائكة ، وعن يساره ملائكة ، فارتقى عليه هو وجبريل.(لوامع الأنوار البهية وسواطع الأسرار الأثرية لشرح الدرة المضية في عقد الفرقة المرضية،لشمس الدين السفاريني الحنبلي ،ج:۲،ص:۲۸۱، ط:دمشق)
تفسیر ابن کثیر میں ہے
ثم أتيت بالمعراج الذي تعرج عليه أرواح بني آدم ، فلم ير الخلائق أحسن من المعراج، أما رأيت الميت حين يشق بصره طامحًا إلى السماء، فإنما يشق بصره طامحًا إلى السماء عجبه بالمعراج (ج:۵،ص:۲۲،ط:دارطیبۃ )
البدایہ والنھایہ میں ہے
والمقصود أنه صلى الله عليه وسلم لما فرغ من أمر بيت المقدس نصب له المعراج وهو السلم فصعد فيه إلى السماء ولم يكن الصعود على البراق كما قد يتوهمه بعض الناس بل كان البراق مربوطا على باب مسجد بيت المقدس ليرجع عليه إلى مكة.فصعد من سماء إلى سماء في المعراج حتى جاوز السابعة.(ج:۳،ص:۱۳۸،ط:داراحیاء التراث)
والله ورسوله أعلم بالصواب
كتبه محمد مجیب قادري لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال
0 تبصرے