سیرتِ سیدنا امام جعفر الصادق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور کونڈوں کی شرعی حیثیت


سیرتِ سیدنا امام جعفر الصادق  رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور کونڈوں کی شرعی حیثیت

✍️از قلم
محمد فیضان رضا رضوی نجمی عفی عنہ

صدقِ صادق کا تصدق صادق الاسلام کر
بے غضب راضی ہو کاظم اور رضآ کے واسطے 

(1) امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا نام نامی اسمِ گرامی جعفر اور کنیت ابو عبداللہ اور ابو اسماعیل ہے القاب آپ کے بے شمار ہیں مگر زیادہ مشہور ومعروف ترین القاب صادق ہے-( شواہد النبوۃ مصنفہ حضرت عبد الرحمن جامی رحمۃ اللہ علیہ صفحہ١٧٦)

(2) آپ رضی اللّٰہ عنہ کی ولادت مقدسہ 18ربیع الاول کو پیر کے دن سن 83 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی ( تفریح الاذکیا جلد دوم صفحہ ٥٦٢)

3) آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا پدری سلسلہ نسب چھٹی پشت میں حضور صادق الانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے واصل ہوتا ہے؛ امام صادق ابن امام باقر ابن امام زین العابدین ابن امام حسین ابن امیر المومنین مولا علی شیر خدا رضی اللّٰہ عنہ شوہر سیدنا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا بنت سید الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

آپ کا مادری سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے ملتا ہے ،آپ خود فرمایا کرتے تھے: لقد ولدني ابو بكر مرتين ، ترجمہ:- میری خاندان ابوبکر میں دو بار ولادت ہوئی ( شواہد النبوۃ صفحہ ١٦٨) سبحان اللہ خود صادق،نانا صدیق اکبر اور جد اعلیٰ صادق الامین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں

(4) حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ کا شریعت و طریقت سے بہت پرانا رشتہ تھا چونکہ شریعت و طریقت آپ کے ہی گھر کی دین ہے اس وجہ سے آپ شریعت کے معلم اور طریقت کے امام اور ائمہ شریعت و طریقت کے استاد ہیں، حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کوفی و حضرت امام مالک و حضرت یحیی ابن سعید و حضرت ابن جریح و حضرت سفیان ثوری و حضرت سفیان ابن عیینہ حضرت شعبہ حضرت ابو ایوب سختیانی وغیرہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اپ کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہیں- ( الصواعق المحرقہ مصنفہ حضرت علامہ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ ص 199)

(5) آپ ائمہ اہل بیت میں سے چھٹے امام ہیں ائمہ اہل بیت کے اسمائے گرامی یہ ہیں (١) حضرت مولا علی مرتضیٰ (٢) حضرت امام حسن (٣) حضرت امام حسین (٤) حضرت امام زین العابدین (٥) حضرت امام باقر ٦) حضرت امام جعفر صادق (٧) حضرت امام موسی کاظم (٨) حضرت امام علی رضا ( ان کو امام ضامن بھی کہا جاتا ہے) /ملفوظات اعلی حضرت ج3 ص 43 (٩) حضرت امام جواد (١٠) حضرت امام علی عسکری (١١) حضرت امام محمد حسن الخاص (١٢) حضرت امام محمد ابوالقاسم رضی اللہ تعالی عنہم (شواہد النبوۃ صفحہ ١٥٩تا ٢١٦ تفریح الاذکیا ص۔ ٥٦١تا ٥٧٠)

(6) کتاب جفر جو آپ کے علوم و اسرار کی حامل ہے آپ ہی کی تصنیف لطیف ہے{ اعلی حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ''جفر سے جو جواب نکلے گا ضرور حق ہوگا کہ یہ علم اولیاء کرام کا ہے اہل بیت عظام کا ہے امیر المومنین علی مرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ کا ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جفر کے بانئ اول حضرت امیر المومنین مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ ہیں کتاب جفر میں شاید امام صادق نے اسے مشروح و مبسوط فرمایا ہے واللہ تعالیٰ اعلم
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہےکہ ہمیں *ما کان وما یکون* (جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ آئندہ ہوگا)* کا علم سکھایا گیا ہے ہمارے قلوب پر الہام ہوتا ہے اور ملائکہ کی باتیں ہم سنتے ہیں البتہ ملائکہ کو دیکھتے نہیں اور ہمارے پاس جفر احمر ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلحہ ہیں اور ہمارے پاس جفر ابیض ہے جس میں تورات، انجیل، زبور اور قرآن کے نسخے ہیں اور ہمارے پاس مصحفِ فاطمہ ہے جس میں قیامت تک ہونے والے حوادث و اسماء کا بیان ہے اور ہمارے پاس کتاب جامعہ ہے جس کا طول ٧٠ستر ہاتھ ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لکھوایا اور مولائے کائنات نے اسے تحریر فرمایا""خدا کی قسم لوگ قیامت تک اس کے محتاج ہیں (شواہد النبوہ ص١٨٧)

کتاب جفر کی جامعیت کا یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت امام علی رضا جو آپ کے پوتے ہیں انہیں جب مامون الرشید نے اپنا ولی عہد بنانا چاہا تو آپ نے انکار فرما دیا بعد اصرار بسیار نوبت وعیدوتہدید تک پہنچی تو کراہاً قبول فرمایا اور اس باب میں ایک تحریر فصل فرمائی اس کے آخر میں ارشاد فرمایا "" الجفر والجامعه يدلاني على ضد ذالك"" کتاب جفر اور جامع اس کی دلالت کرتی ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ مامون کے عہد حیات میں ہی خدا ناترسوں نے انگور و انار میں آپ کو زہر دیا( جس کی پیش گوئی بھی آپ خود ہی فرما چکے تھے) جس کے اثر سے امام صادق کے اس ماہ پارے نے شہادت پائی-صلوات اللہ تعالی وسلامه علی جدہ الکریم و علیہم اجمعین( تفریح الازکیا جلد٦ صفحہ ٥٦٥)

امام صادق رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ ارشاد ہے: سلونى قبل ان تفقدوني فانه لا يحدثكم احد بعدي بمثل حديثى(شواہد النبوہ ص١٨٧) کہ مجھے کھونے سے پہلے مجھ سے پوچھ لو کہ میرے بعد تم سے میری طرح کوئی بھی حدیث بیان نہیں کرے گا سبحان اللہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کی مقدس وصیت اسی ارشاد امام کے اتباع کی حاصل ہے-""اللہ تعالی ضرور اپنے دین کی حمایت کے لیے کسی بندے کو کھڑا کرے گا مگر نہیں میرے بعد جو آئے کیسا ہو اور تمہیں کیا بتائے اس لیے ان باتوں کو خوب سن لو حجت اللہ قائم ہو چکی ہے اب میں قبر سے اٹھ کر تمہارے پاس بتانے نہ آؤں گا ( وصایاشریف مطبوعہ پرنٹنگ پریس لاہور، صفحہ ٤)

(7)حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے فرامین و ارشادات بے شمار ہیں مگر حصولِ برکت کےلئے یہاں پرکچھ ذکر کر دیتا ہوں - (1) ہم اللہ کی وہ رَسّی ہیں جس کے متعلق اللہ تبارک و تعالی نے اس آیت مقدسہ (پ4'سورہ آل عمران ) میں ارشاد فرمایا: ""اللہ کی رَسی کو مضبوط پکڑ لو اور متفرق نہ ہو""( الصواعق المحرقہ مطبوعہ مصر ص١٤٩)

(2) آپ نے فرمایا جو کہےخدا کسی چیز پر ہے اور کسی چیز سے ہے وہ کاذب ہے-( مراۃ الکونین ص٦١)

(3) جس کا دشمن عقلمند ہو وہ آدمی نیک بخت ہے ( کہ عاقل ناجائز حرکت کر کے خود مبتلائے معاصی نہ ہوگا- (مراۃ الکونین ص٦١)

(4)ایک بار سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا""عاقل کون ہے؟ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کی جو خیر اور شر میں تمیز کرے-فرمایا یہ تو جانوروں کو بھی حاصل ہے کہ پیار اور مار میں تمیز کرتے ہیں-امام اعظم نے عرض کی حضور  آپ ارشاد فرمائیں تو آپ نے فرمایا عاقل وہ ہے جو دو خیروں میں خیر الخیر کو اپنائے اور وہ دو شروں میں سے ہلکے شر کو پہچانے ( مراۃ الکونین ص٦١)

یعنی اگر مضطر ہو جائے تو ہلکے شر کو اختیار کرے جیسا کہ حدیث پاک میں ارشاد فرمایا ہے: من ابتلى ببلتين فليختر اسهلهما مقاصد حسنہ( ص ١٩٠)

جو دو بلاؤں میں مبتلا کر دیا جائے وہ سہل ترین بلا کو اختیار کرے (7)حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ کا خوفِ خدا کا یہ عالم تھا کہ ایک بار آپ نے اپنے غلاموں سے فرمایا! آؤ ایک دوسرے سے بیعت کریں اور عہد کریں کہ ہم میں سے جو بھی قیامت کے دن نجات پائے سب کی شفاعت کرے انہوں نے عرض کی اے ابنِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپ کے دادا شفیعِ دو عالم ہیں-اپ کو ہماری شفاعت کی کیا احتیاج؟آپ نے فرمایا مجھے اپنے اعمال سے شرم آتی ہے کہ قیامت کے دن دادا جان کو کیا منہ دکھاؤں- (مراۃ المناجیح ص١٦٠)

اور آپ رضی اللہ عنہ کی سچائی اور حق گوئی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار آپ خلیفہ منصور کے دربار میں رونق افروز تھے مکھیاں بار بار خلیفہ کے منہ پر بیٹھتی تھی خلیفہ نے جھنجھلا کر کہا اے ابو عبداللہ ( امام صادق رضی اللہ تعالی عنہ کی کنیت ہے) اللہ تعالی نے مکھی کو کیوں پیدا کیا؟اپ نے فرمایا کہ ظالموں اور مغروروں کو ذلیل کرے- (تفریح الازکیا ص٥٦٢)

(8) اللہ عزوجل نے آپ کو بے شمار کرامتیں اور عظیمتوں سے نوازا تھا چنانچہ ابو البصیر کہتے ہیں کہ میں مع اپنی کنیز کے مدینہ شریف حاضر ہوا رات کو اس کے  ہمراہ شب باش ہوا صبح حمام کی جانب جا رہا تھا کہ ایک گرو نظر آیا جو زیارتِ امام صادق  کو جا رہا تھا میں بھی ساتھ ہو لیا کاشانۂ امام پر پہنچے تو نگاہِ امام مجھ پر پڑی فرمایا اے ""ابو البصیر""! کیا تم نہیں جانتے کہ پیغمبروں اور ان کی اولادوں کے گھر حالتِ جنابت میں نہیں جاتے؟ ابو البصیر نے عرض کی حضور یہ گروہ حاضر ہو رہا تھا میں ڈرا کہ مبادہ دولتِ زیارت  سے نکل جائے اب توبہ کرتا ہوں آئندہ ایسا نہیں ہوگا (شواہد النبوہ ص١٩٠)

ایک شخص کو منصور نے قید کر دیا تھا اس کا ایک دوست عرفہ کے دن بعدِ نماز عصر امام سے ملاقی ہوا امام صاحب نے دریافت فرمایا تمہارا دوست رہا ہوا یا نہیں؟عرض کی نہیں- اپ نے دستِ دُعا دراز فرمایا اور فرمایا! خدا کی قسم وہ رہا ہو گیا جب یہ شخص حج سے لوٹا تو اپنے دوست سے ملا اور پوچھا کہ تم کب رہا ہوئے اس نے کہا عرفہ کے دن عصر کے بعد (شواہد النبوہ ص١٦١)

ایک بار امام صادق رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں کہیں تشریف لے جا رہے تھے راستے میں ایک بڑھیا کو دیکھا کہ ماں بچوں کے کھڑی ہے اور وہ اور بچے زار زار رو رہے ہیں پس ایک گائے مری پڑی تھی- امام صاحب رحمت اللہ علیہ نے رونے کا سبب دریافت فرمایا''بڑھیا نے کہا میرے اور میرے بچوں کے معاش کا ذریعہ صرف یہی گائے تھی اب کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا کیا تو چاہتی ہے کہ خدا اسے زندہ فرما دے؟ بڑھیا نے کہا اس مصیبت کے وقت تم میرا مذاق بناتے ہو! فرمایا نہیں مذاق نہیں دعا فرمائی گائے کو ٹھوکر لگائی اور آواز دی گائے تندرست و توانا چلتی پھرتی زندہ ہو کر کھڑی ہو گئی اپ لوگوں کے ہجوم میں چپکے سے تشریف لے گئے اور بڑھیا کو معلوم بھی نہ ہو سکا کہ  کون تھے- (مراۃ الکونین ص٦١)

(10)حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا اخلاق، سخاوت اور سادگی بے مثال تھی- ایک شخص کی اشرفیوں کی تھیلی گم ہو گئی اس نے الزام امام کے سر پر رکھ دیا- آپ نے اس سے دریافت کیا اس میں کتنی اشرفیاں تھیں اس نے کہا ہزار- اپ اسے دولت کدے پر لے گئے اور ایک ہزار اشرفیاں گن کر دی پھر اس شخص کو اس کی گمی ہوئی تھیلیاں مل گئی وہ آپ کے اشرفیاں واپس لایا اور معذرت کی آپ نے ارشاد فرمایا: ہم اہل بیت جو دے دیتے ہیں وہ واپس نہیں لیا کرتےیہ اشرفیاں بھی تم رکھ لو تمہیں دونوں مبارک ہو اس نے لوگوں سے دریافت کیا یہ صاحب خلقِ نبوی کون ہیں؟ بتایا گیا کہ امام صادق رضی اللہ عنہ- وہ بے حد شرمندہ ہوا اور عطائے امام لے کر چلا گیا (مراۃ الکونین ص١٦)

ایک بار ایک شخص نے اپ کو لباس فاخرہ میں دیکھا کی ""ليس هذا من بيتك"" یہ لباس آپ کے گھرانے کا نہیں ہے اپ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کرتے کے نیچے کیا دیکھا کہ نیچے ٹاٹ کا لباس ہے جو ہاتھ میں خراش پیدا کرتا ہے اس نے تعجب سے پوچھا یہ کیا ہے فرمایا""هذا للخلق وهذا للحق"یہ مخلوق کے لیے ہے اور وہ خالق کے لیے- ( مراۃ الکونین ص٦٢)

(11) حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی وفات ماہِ شوال میں ہوئی (تفریح الازکیا ٥٦٣) مگر معتمد اور مستند قول یہی ہے کہ آپ کا وصال ماہِ رجب میں پیر کے دن ہوا،تاریخ 15 رجب المرجب تھی ( شواہد النبوۃ ص١٨٧) سن وفات بعض کتابوں میں١٨٤ ہجری ہے عمر شریف ٦٧ارسٹھ سال بیان کی گئی یہ بھی قول ہے کہ آپ کی وفات زہر کے اثر سے ہوئی - ( الصواعق المحرقہ ٢٠١ تفریح الازکیا ص٥٦٣ مراۃ العروس ص٦٢)

مزار مقدس اپ کا جنت البقی قبرستان مدینہ منورہ اپ کے والد ماجد امام باقر رضی اللہ تعالی عنہ اور اپ کے دادا امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ہے- ( شواہد النبوۃ ص١٨٧ تفریح الازکیا ج1 ص٥٦٣)

(11) حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ کی کونڈوں کی نیاز پاک و ہند میں بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے اور ہمارے ملک میں 22 رجب المرجب کو ٹکیوں یا حلوہ پوری یا کھیر پوری وغیرہ پر ہوتی ہے وہ جائز و مستحسن ہے تاریخ و طعام کا تعین،تعین شرعی نہیں بلکہ عادی و عرفی ہے نیاز کھیر پوری پر ہو یا کسی اور چیز پر تاریخ  خواہ 22 ہو یا 15 رجب،  نیاز بہرحال ہو جاتی ہے،البتہ خاص یومِ وصال حصولِ برکات کا اعلیٰ ذریعہ ہے حضور سیدنا اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اولیاء کرام کی ارواحِ طیبہ کو ان کے وصال شریف کے دن قبور کریمہ کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے چنانچہ وہ وقت جو خاص وصال شریف کا ہے حصولِ برکات کے لیے زیادہ مناسب ہوتا ہے- ( ملفوظات اعلیٰ حضرت ج٣ص٤٦)

(12) حضرت امام جعفر صاد ق رضی اللہ عنہ کی فاتحہ کسی بھی تاریخ کو کر سکتے ہیں لیکن افضل یہ ھے کہ ١٥ رجب کو کریں کہ حضرت کےوصال کی تاریخ پندرہ  رجب ہے جیسا کہ فتاو ی فقیہ ملت میں ہے کہ حضرت امام جعفر صاد ق رضی الله عنہ کی نیاز 15  رجب کو کریں کہ حضرت کا وصال 15 ، رجب ہی کو ھوا ھے نہ کہ 22  رجب کو ۔۔ (فتاوی فقیہ ملت جلد ٢ صفحہ 265 ) 
( مراة الاسرار صفحہ 213 ) 
( سوانح بارہ امام صفحہ 125) 
مذ کورہ کتابوں کے مذ کورہ صفحہ پر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صاد ق رضی اللہ عنہ کے وصال کی تاریخ 15 ، رجب لکھی ہوئی ہے ، ،، شواھد النبوة اور مراة الکونین ،، میں بھی وصال کی یہی تاریخ درج ہے ۔۔لہذ ا کونڈے کی فاتحہ 15 رجب کو دلائیں اور اگر کوئی 22 رجب کو دلوائے تو منع نہ کریں

⛔ پوسٹ میں کسی قسم کی کمی بیشی کرنا شرعاً اخلاقاً  درست نہیں ہے!

فقط والسلام
فقیر قادری
محمد فیضان رضا رضوی نجمی عفی عنہ

مؤرخہ
31/1/2024

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے