السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام کہ
ایک مسلمان عورت کسی ہندو سے زنا کی اور اس سے بچہ پیدا ہو تو وہ بچہ مسلمان ہے یا نہیں؟اور اگر مسلمان ہے تو پھر وہ مسجد میں اذان دے سکتا ہے یا نہیں؟ وہ لڑکا نماز پڑھا سکتا ہے یا نہیں؟تفصیل و دلیل کے ساتھ جواب دیں مہربانی ہوگی ؟ سائل ،محمد ریحان رضا، جھاڑکھنڈ
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب،
زنا سخت کبیرہ گناہ ہے، سب سے پہلے تو یہ عورت سچے دل سے توبہ کرے، اور آئندہ اس شنیع و غلیظ فعل کو نہ کرنے کا پکا عزم کرے، رہا بچہ تو وہ ولد الزنا ہے مگر مسلمان ہے، اس لیے کہ زانی اور زانیہ میں سے کوئی ایک مسلمان ہو تو راجح قول کے مطابق بچہ مسلمان ہوتا ہے، یہ بچہ اذان دے سکتا ہے کہ ولد الزنا کی اذان بلا کراہت جائز ہے، البتہ اس کی امامت مکروہ تنزیہی ہے ،لیکن اگر اس کے علاوہ کوئی اور قابل امامت شخص موجود نہ ہو تو اس کی امامت میں کراہت تنزیہی بھی نہیں ہے، ردالمحتار میں علامہ شامی علیہ الرحمۃ مسلم اور کافرہ کے بیچ زنا سے پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں فرماتے ہیں "یظھر لی الحکم بالاسلام للحدیث الصحیح کل مولود یولد علی الفطرۃ حتی یکون ابواہ ھما اللذان یھودانہ اوینصرانہ ، فانھم قالوا انہ جعل اتفاقھما ناقلالہ عن الفطرۃ فاذا لم یتفقابقی علی اصل الفطرۃ، وایضاحیث نظروا للجزئیۃ فی تلک المسائل احتیاطا فلینظر الیہا ھنا احتیاطا ایضا، فان الاحتیاط بالدین اولی ولان الکفر اقبح القبیح فلاینبغی الحکم بہ علی شخص بدون امر صریح " (ملخصا)
مجھے اس کے مسلمان ہونے کا حکم کرنا ہی سمجھ میں آتا ہے اس لئے کہ حدیث صحیح ہے کہ ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے ماں باپ دونوں ہی اس کو یہودی یا نصرانی بناتے ہیں، علماء نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ماں اورباپ دونوں کے اتفاق کو دین فطرت سے منتقل کرنے والا ٹھہرایا، تو اگر دونوں متفق نہ ہوں تو بچہ اصل فطرت پر رہے گا،دوسری وجہ یہ ہے کہ علماء نے جب ان مسائل میں احتیاطاجزئیت کا لحاظ کیا تو یہاں بھی احتیاطالحاظ جزئیت ہونا چاہئے کیونکہ دین کے معاملہ میں احتیاط ہی اولی ہے، اوراس لیے بھی کہ کفر سب سے بدتر قبیح ہے تو کسی شخص پر کسی امر صریح کے بغیر حکم کفر لگانا مناسب نہیں،(ملخصا) (ردالمحتار کتاب النکاح باب نکاح الکافر جلد ٣ صفحہ ١٩٧،دار الفکر بیروت)
درمختار میں ہے "ویجوز بلا کراھۃ اذان صبی مراھق وعبد واعمی وولد زنی" اور بلا کراہت سمجھدار بچہ، غلام، نابینا اور زنا کے بچے کی اذان جائز ہے، (درمختار کتاب الصلاۃ باب الأذان جلد ١ صفحہ ٣٩١/ ٣٩٢،دار الفکر بیروت)
اسی طرح بہارشریعت جلد اول حصہ ٣ صفحہ ٤٧٠،اذان کا بیان میں ہے، اسی میں ہے "ویکرہ تنزیھا امامۃ عبد، واعرابی، وولد الزنا، ھذا ان وجد غیرھم والا فلا کراھۃ،بحر" (ملتقطا) غلام ،اعرابی، اور ولد الزنا کی امامت مکروہ تنزیہی ہے ،یہ کراہت اس وقف ہے جب کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا لائق امامت شخص موجود ہو ورنہ تو کوئی کراہت نہیں ہے، (درمختار کتاب الصلاۃ باب الامامۃ جلد ١ صفحہ ٥٥٩ تا ٥٦٢،دار الفکر بیروت) بہارشریعت جلد اول حصہ ٣ صفحہ ٥٧٣، امامت کا بیان میں بھی اسی طرح ہے،
والله تعالى اعلم بالحق والصواب
محمد اقبال رضا خان مصباحی
سنی سینٹر بھنڈار شاہ مسجد پونہ وجامعہ قادریہ کونڈوا پونہ ٢٦،جمادی الآخرۃ ١٤٤٥ھ / ٩، جنوری ٢٠٢٤ء ،بروز منگل
0 تبصرے