وضو میں ضرورت سے زیادہ پانی بہانا اسراف کے حکم میں ہے یا نہیں؟


کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے ذیل کے بارے میں کہ بعض اوقات سردیوں میں وضو کے دوران گیزر کا بہت گرم پانی آجاتا ہے جس سے وضو نہیں ہو سکتا جب تک کچھ دیر پانی بہایا نہ جاٸے کیا یہ اسراف ہوگا ؟ برائے مہربانی رہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں.

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَاب 
صورت مذکورہ میں اسراف کا حکم نہیں ہوگا کیونکہ  اسراف کہتے ہیں کسی چیز کو بلاضرورت و بیجا استعمال کرنے کو جبکہ یہاں تو ضروت ہے کہ  اس پانی  کے استعمال سے نقصان کا قوی اندیشہ ہے. البتہ کوشش کی جائے کہ اگر ممکن ہو تو بہت زیادہ گرم پانی کسی بالٹی وغیرہ میں جمع کر لیا جائے تاکہ ضائع ہونے سے بچ جائے.

"حاشیہ طحطاوی " میں اسراف کی تعریف اس طرح کی گئی ہے: الاسراف ھو الزیادۃ علی قدر الحاجۃ (ضرورت سے زیادہ خرچ اسراف ہے۔) (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار،ج1 ، کتاب الطہارۃ،ص76، مطبوعہ مکتبۃ العربیہ کوئٹہ).

"تاج العروس"میں ہے : وضع الشیئ فی غیر موضعہ
کسی چیز کو غیرمحل میں (بےجا)خرچ کرنا۔ (تاج العروس ج6،باب الفا، فصل السین، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت ص138).

"بحرالرائق" میں ہے: الاسراف ھو الاستعمال فوق الحاجۃ الشرعیہ: اسراف یہ ہے کہ حاجت شرعیہ سے زیادہ استعمال کرے. (البحرالرائق ج1،کتاب الطہارۃ ص29 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی).

"فتاوی رضویہ" میں اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ و الرضوان اسراف کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اسراف کی تفسیر میں کلمات متعدد وجہ پر آئے:(1). غیر حق میں صرف کرنا۔ یہ تفسیر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمائی۔

الفریابی وسعید بن منصور وابو بکر بن ابی شیبۃ والبخاری فی الادب المفرد وابنا جریر والمنذر وابی حاتم والطبرانی والحاکم وصححہ والبیھقی فی شعب الایمان واللفظ لابن جریر کلھم عنہ رضی اللہ تعالی عنہ فی قولہ تعالی"ولا تبذر تبذیرا " قال التبذیر فی غیر الحق وھو الاسراف. فریابی ، سعید بن منصور، ابو بکر بن ابی شیبہ ادب المفرد میں،بخاری ، ابن جریر، ابن منذر ابن ابی حاتم، طبرانی، حاکم بافادہ تصحیح، شعب الایمان میں بیہقی اور ا لفاظ ابن جریر کے ہیں۔ یہ سب حضرات عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے ارشاد باری تعالی'' ولا تبذر تبذیرا'' کے تحت راوی ہیں کہ انہوں نے فرمایا تبذیر غیرحق میں صرف کرنا اور یہی اسراف بھی ہے۔(فتاوی رضویہ ج 1.2، کتاب الطہارت، ص91 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور).

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسراف کی تعریفات کو ذکر کرنے اور ان کی تحقیق و تفصیل بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’ہمارے کلام کا ناظر خیال کرسکتا ہے کہ ان تمام تعریفات میں  سب سے جامع ومانع و واضح تر تعریف اول ہے اور کیوں  نہ ہو کہ یہ اُس عبداللّٰہ کی تعریف ہے جسے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ علم کی گٹھری فرماتے اور جو خلفائے اربعہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے بعد تمام جہان سے علم میں  زائد ہے اور جوابو حنیفہ جیسے امام الائمہ کا مُورثِ علم ہےرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وَعَنْہُ وَعَنْہُمْ اَجْمَعِیْن۔( فتاوی رضویہ، ج 1.2، کتاب الطہارت، ص94، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
مجیب:ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی

نظرثانی: ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری المدنی زید مجدہ (14جمادی الاول1443ھ بمطابق  19دسمبر 2021ء بروز جمعۃ المبارک)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے