کیا حضور صابر پاک رحمۃاللہ‌علیہ نے اپنی جنازہ خود ہی پڑھائی ؟


السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین کہ صابر کلیری رحمۃ اللہ علیہ نے  اپنی نماز جنازہ پڑھائی یہ واقعہ صحیح ہے یا صحیح نہیں ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔ السائل: خبیب القادری مدناپور شیش گڑھ بہیڑی بریلی شریف یوپی بھارت

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب

کافی،تلاش بسیار کے باوجود بھی، اس واقعہ کی تحقیق میں مجھ فقیر کو کوئی معتبر و مستند کتاب نہ ملی۔البتہ مشہور یہی ہے کہ۔ صابر پاک رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جنازہ کی نماز خود پڑھائی ہے۔۔ اور  دو تین کتابوں میں الگ الگ طریقے سے  بھی بیان کیا گیا ہے،  اور فقیر نے بھی کچھ اس طرح پڑھا ہے ۔۔ جس وقت سلطانی لشکر فتح مندی کے ساتھ قلعہ میں داخل ہو رہا تھا، عین اس وقت حضرت خواجہ شمس الدین ترک رحمۃ اللہ علیہ کو، اپنے پیرو مرشد رحمۃ اللہ علیہ کی بات یاد آئی اور سمجھ لیا کہ آج حضرت مخدوم پاک علاؤ الدین علی احمد صابر رحمۃ اللہ علیہ، کا وصال ہو گیا ہے، چنانچہ فوری طور پر کلیر شریف کے لئے روانہ ہوگئے۔ کلیر شریف میں پہنچ کر مرشد پاک رحمۃ اللہ علیہ کے غسل و کفن سے فارغ ہونے کے بعد جنازہ بالکل تیار ہو گیا تو دیکھا کہ ہزاروں لوگ حضرت مخدوم پاک رحمۃ اللہ علیہ کی نماز جنازہ پڑھنے کیلئے موجود ہیں۔ نماز جنازہ پڑھانے کی کوئی جسارت نہ کرتا تھا کیونکہ نماز جنازہ اس شخص کو پڑھانا تھا جو حضرت علی احمد صابر رحمۃ اللہ علیہ، سے زیادہ بلند و مرتبہ رکھتا ہو۔ اسی شش و پنج میں تھے اور تھوڑی دیر انتظار کے بعد مصلے پر کھڑے ہوتا ہی چاہتے تھے کہ حاضرین نے دیکھا کہ ایک نقاب پوش گھوڑے پر سوار چلا آرہا ہے قریب آکر اس نے گھوڑا باندھا اور نماز جنازہ پڑھانے کے لئے مصلے پر کھڑا ہو گیا۔ نماز جنازہ پڑھانے کے بعد جب وہ نقاب پوش واپس جانے کے لئے گھوڑا کھولنے لگا تو اس وقت حضرت خواجہ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ ، کو ایک بات یاد آگئی کہ انہوں نے ایک دن اپنے پیرو مرشد حضرت مخدوم علی احمد صابر رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا تھا کہ حضور ! مقام فنا اور مقام بقا کیا ہے؟ تو حضرت مخدوم پاک رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں ارشاد فرمایا تھا کہ فنا اور بقا کا راز کسی وقت ظاہر کر دیا جائے گا۔

آج وہ سوال اچانک اتنی مدت کے بعد حضرت خواجہ شمس الدین ترک رحمۃ اللہ علیہ کے ذہن میں دوبارہ ابھر آیا تھا پھر ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جس بزرگ نے مرشد پاک رحمۃ اللہ علیہ کی نماز جنازہ پڑھائی ہے ان سے ملاقات تو کرنی چاہیے کہ وہ کون ہیں تاکہ پتہ چل سکے کہ مرشد پاک رحمۃ اللہ علیہ کی نماز جنازہ کسی شخصیت نے پڑھائی ہے۔ اس اثناء میں وہ بزرگ گھوڑے پر سوار ہو کر جانے ہی والے تھے کہ حضرت خواجہ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ، دوڑتے ہوئے ان کے قریب پہنچے اور عرض کیا اے اللہ کے بندے ! آپ کون ہیں اور آپ کا نام کیا ہے؟ یہ سن کر نقاب پوش نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دیا اور فرمایا فقیر کے جنازے کی نماز فقیر ہی نے پڑھائی ہے۔ حضرت خواجہ شمس الدین اللہ نے یہ دیکھا تو نہایت حیران ہوئے۔ مرشد پاک رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا شمس الدین احیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا وہ مقام فنا ہے اور یہ مقام بقا ہے یہ سنتے ہی حضرت خواجہ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ ، اپنے آپکو سنبھال نہ سکے اور بے ہوش ہو گئے ۔ اس اثناء میں وہ بزرگ والے گھوڑے پر سوار ایک طرف روانہ ہو کر سب کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔ دیوان حضرت علی احمد صابری کلیری رحمۃ اللہ علیہ صفحہ (۵۵ تا ۵۶) غلام پرنٹنگ پریس لاہور)  گلزار حقیقت میں بھی اس واقعہ کو بیان کیا گیا ہے۔ وہاں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ صفحہ۔ (۳۳۹) مکتبہ صابریہ بستی چراغ شاہ قصور پاکستان)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصــــــواب
كتبه : محمد ارباز عالم نظامی
 ترکیٹی کوریاں کشی نگر،
 یوپی الهند؛ مقیم حال
 بريده القصىم سعـودي عربيـــة

19/01/2024

 الجواب صحیح۔ 
العبد ابوالفیضان الحاج محمد عتیق الله صدیقی فیضی یارعلوی ارشدی عفی عنہ‌، مقام کھڑریابزرگ پھلواپور پوسٹ گورا بازار ضلع سدھارتھ نگر یوپی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے